جاوید حبیب، انڈیا کے مشہور نائی

جاوید حیبیب انڈیا کے 120 شہروں میں تقریباً 1400 سیلون اور 70 اکیڈمی چلاتے ہیں۔ یہ بال کاٹنے کو ہنر کی بجائے سائنس کہنا پسند کرتے ہیں۔ ’ قینچی میں ایک طاقت ہے جو انسان کو خوش شکل بناتی ہے۔‘

ہیئر ڈریسنگ کی انڈین دنیا میں ایک نام گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل بام عروج پر ہے اور وہ ہے جاوید حبیب کا۔ جاوید اپنے آپ کو نائی، حجام اور بال کاٹنے والا، بہت فخر سے کہلوانا پسند کرتے ہیں۔

ان کے دادا نظیر احمد صدارتی محل کے حجام خاص تھے۔ جاوید کے اس پیشے سے منسلک ہونے میں خاندانی وراثت اور والد حبیب احمد کی کاوش شامل ہے۔ وہ انڈیا کے 120 شہروں میں تقریباً 1400 سیلون اور 70 اکیڈمی چلاتے ہیں۔ یہ بال کاٹنے کو ہنر کی بجائے سائنس کہنا پسند کرتے ہیں۔

جاوید حبیب انڈیا کے ایک مشہور ہیئر سٹائلسٹ ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں  نے نائی کے پیشے کو نہ صرف قابل احترام بنایا بلکہ اسے ایک بڑی اور مہنگی انڈسٹری بنانے میں بھی اہم رول نبھایا ہے۔ وہ کئی برسوں سے بال کاٹنے کی تعلیم دے رہے ہیں اور اسی غرض سے انڈیا کے مختلف حصوں میں اکیڈمیاں بھی چلاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ شہر در شہر جاوید حبیب اکیڈمی کے تربیت یافتہ شاگرد فینسی سیلونوں میں بال کاٹتے نظر آجاتے ہیں۔ شہرت کی بلندیوں تک پہنچنے کے باوجود جاوید حبیب نے اپنے ہاتھوں سے قینچی کو الگ نہیں کیا۔ وہ کبھی دہلی کے اپنے سیلونوں میں بال کاٹتے ہیں تو کبھی ممبئی میں۔ ان کا کہنا ہے کہ قینچی میں ایک طاقت ہے جو انسان کو خوش شکل بناتی ہے۔

مغربی اتر پردیش کے مظفرنگر سے تعلق رکھنے والے جاوید حبیب نے بتایا کہ ’میرے دادا نظیر احمد نے بطور حجام راشٹر پتی بھون کو جوائن کیا جسے آزادی سے پہلے گورنر ہاؤس کہا جاتا تھا۔ وہ وہاں 1937 سے 1972 تک رہے، وہاں پر جتنے لوگ بھی رہتے تھے، کام کرتے تھے، سب کے بال میرے دادا کاٹتے تھے۔ پنڈت نہرو، لارڈ ماؤنٹ بیٹن سمیت دیگر وزرا، سب لوگ میرے دادا سے بال کٹواتے تھے۔

پھر میرے دادا ریٹائر ہوجاتے ہیں اور ان کی ملازمت میرے والد کو دینے کی کوشش کی گئی، جسے میرے والد نے منظور نہیں کیا۔ انہیں احساس ہوا کہ اگر وہ راشٹرپتی بھون میں رہیں گے تو ان کے لیے بہت محدود دنیا ہوگی، اس لیے اس سے باہر نکلنا چاہیے کیونکہ راشٹرپتی بھون ایک نوعیت کی ریاست ہے۔

میرے والد لندن چلے گئے، جس میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا تعاون شامل رہا۔ اس کے بعد میرے والد نے اوبرائے ہوٹل میں کام کیا اور پھر اپناا برانڈ شروع کیا 16 اکتوبر 1983 میں، اور آج ہم بالوں کی دنیا میں راج کرتے ہیں۔‘

جاوید حبیب نے مزید بتایا کہ ’میری پہچان میری قینچی ہے۔ لوگ مجھے جانتے ہیں میری قینچی کی وجہ سے۔ میں نے اپنے پیشے کی شروعات کی تھی 1986 میں، حالانکہ میری خواہش ہوٹل مینیجمنٹ کرنے کی تھی جس کے لیے میں نے فرانسیسی زبان سیکھی۔ لیکن تب میں پہنچ جاتا ہوں لندن۔ ایک بہت ہی ماڈرن ملک میں۔ چمک دمک والے ملک میں۔

وہاں جا کر دیکھتا ہوں محسوس کرتا ہوں کہ یہ جو پیشہ ہے، جسے ہم نائی کا کام بولتے ہیں ایشیا میں۔ یہ پیشہ تو بہت بڑا ہے۔ لندن میں نو ماہ کا کورس مکمل کرنے کے بعد ڈھائی سال تک وہیں کام کرتا ہوں۔ اور جب میں یہاں واپس آتا ہوں تو وہاں اور یہاں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہاں آنے کے بعد میں بہت محنت کرتا ہوں اور نائی کے کام پر تعلیمی مواد بناتا ہوں اور اسے پڑھانا شروع کرتا ہوں۔ اس طرح میں نے اب تک لاکھوں حجاموں کو تربیت دی ہے۔‘

جاوید حبیب مانتے ہیں کہ ایشیا، بطور خاص انڈیا میں نائی کے لفظ کو احترام سے نہیں لیا جاتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر تاریخ کی بات کریں تو میں مانتا ہوں کہ انڈیا نے دنیا کو بالوں کا فیشن دیا ہے۔ اجنتا، الورا (غار) کی مورتیوں میں جو ہیئر سٹائل ہے وہ فیشن ہے۔ یہ بات ہے پانچ ہزار سال پہلے کی۔ تو سوچو کہ پانچ ہزار سال پہلے دنیا کو ہم نے بالوں کا فیشن دیدیا جو ختم ہوگیا اور کیوں ختم ہوگیا؟  کیونکہ ہم سوچتے ہیں کہ یہ نائی کا کام ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہمارا خاندان 13 سو یا 14 سو سیلون چلاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس تقریباً 20 سے 25 ہزار لوگ کام کرتے ہیں، ان کے گھر ہماری قینچی سے چل رہے ہیں۔ حبیب میرے والد کا پہلا نام ہے، لیکن ہم اس کو بطور برانڈ لے کر چلے۔ میرے والد کا نام ہے حبیب احمد، ہم لوگوں نے حبیب کو بطور برانڈ اٹھایا۔ ہم سب لوگوں نے مل کر بہت محنت کی اور تب جا کر حبیب انڈیا کا برانڈ بن گیا۔ ‘

جاوید حبیب کے تربیت یافتہ حجام انڈیا سمیت کئی ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ’مجھے لگتا ہے کہ ہرشہر کی اپنی ضرورت ہے۔ جو دہلی میں ہوتا ہے وہ سہارنپور میں نہیں ہوتا۔ جو دہلی میں ہوتا ہے وہ دبئی میں نہیں ہوتا ہے۔ وہاں لوگوں کے بال بہت ٹوٹتے ہیں۔ وہاں کے لوگوں کی سٹائلنگ وہاں کے موسم کے حساب سے ہے۔ وہاں ہمارے پاس انڈین آتے ہیں۔ بنگلہ دیشی آتے ہیں۔ نیپالی آتے ہیں۔ پاکستانی آتے ہیں۔ بہت لوگ آتے ہیں۔ لیکن سب کی ضرورت ایک ہے۔ اچھے بال کٹنے چاہئیں۔ اس کے سوا کچھ نہیں چاہیے۔ لوگ بولتے ہیں مجھے شاہ رخ خان جیسے بال کاٹنے ہیں، مجھے سلمان خان جیسے بال کاٹنے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ جو میری کرسی پر بیٹھ جائے اسے محسوس کراؤ کہ وہ شاہ رخ خان سے کم اچھا نہیں لگ رہا۔ اتنی اچھی سٹائلنگ ہونی چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا