باجوڑ میں حجام کی منفرد دکان جو لائبریری بھی ہے

سلارزئی میں ایک ایسی حجام کی دکان ہے جہاں گاہک اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے سیاسی بحث کی بجائے مطالعہ کرتے ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ کے دور دراز علاقے سلارزئی میں حجام کی یہ دکان کسی لائبریری کا منظر پیش کرتی ہے کیوں کہ یہاں پر حجامت کے لیے آئے لوگ اپنی باری کے انتظار کے دوران خاموشی سے  کتب بینی میں مصروف نظر آئیں گے۔

سلارزئی میں 21 سالہ نوجوان رحمان خان  نے اپنی ہیئر ڈریسر کی دکان میں لائبریری کھولی ہے جہاں اسلامی، پشتو اور تاریخ کی مختلف کتب موجود ہیں۔

رحمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بال کٹوانے کے لیے آئے لوگ اپنی باری کے انتظار کے دوران اکثر سیاسی بحث میں اتنا آگے بڑھ جاتے تھے کہ بات جھگڑے تک چلی جاتی تھی۔

ایسے میں انہیں خیال آیا کہ  کیوں نہ دکان کے ماحول کو پرسکون  بنانے اور پڑھنے کا رواج واپس لانے کے لیے کتب رکھی جائیں۔

رحمان نے دوستوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے اس خیال کو بہت سراہا اور ساتھ لائبریری کھلنے پر کتابیں عطیہ کرنے کی یقین دہانی  کرائی۔

صبح کے 11 بجے تھے اور ان کی دکان میں لائبریری جیسی خاموشی تھی۔ انٹرویو کے دوران رحمان ہنس ہنس کر شرما کر باتیں کررہے تھے۔

ایسا لگ رہا تھا کہ ان کو  بھی اپنی دکان میں لائبریری کھولنا عجیب محسوس ہورہا تھا۔ وہ خود بی اے کے طالب علم ہیں اور پڑھائی کےساتھ ساتھ دکان  چلا رہے ہیں۔

دکان میں موجود ایک گاہک سید صدیق اکبر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ یہاں آکر مطالعہ کرنے سے تاریخ سے باخبر ہوجاتے ہیں اور بال بھی کٹوا لیتے ہیں۔

’ہیڈکوارٹر خار سے کئی میل دور ایک دیہی اور پسماندہ علاقے  میں اس طرح کی سہولت خوش آئند ہے۔ اس سے یہاں  کے لوگوں میں ایک نیا احساس ابھر سکتا ہے، خاص کر نوجوانوں کو پیغام  ملتا ہے کہ انٹرنیٹ اور دوسری چیزوں میں وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ کتب بینی پر توجہ دیں۔‘

باجوڑ کے مقامی سیاست دان صدیق اکبر تقریباً پچھلے تین سال سے رحمان کے پاس حجامت کے لیے آتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ’لائبریری کھلنے سے پہلے ہم یہاں پراکثرسیاسی بحث کرتے تھے لیکن کبھی کبھار مخالف پارٹی کے ورکر یا سپوٹر سے بحث میں تلخی ہوجاتی تھی تو اب کوشش ہے کہ انتظار کے دوران مطالعہ کروں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ آج کے دور میں سیاسی بحث و مباحثہ ضروری ہے لیکن شرط یہ ہے کہ مخالف پارٹی کا حامی شخص سیاسی پختگی رکھتا ہو۔

مقامی صحافی حنیف اللہ جان کے مطابق باجوڑ کی 16 لاکھ آبادی ہے لیکن یہاں ہیڈکوارٹر خار میں برائے نام ایک پبلک لائبریری موجود ہے جس میں زیادہ  ترکتابیں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے عطیہ کی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ رحمان خان کا اپنی ہیر ڈریسر کی دکان میں لائبریری کھولنا نیک کام ہے، اس سے نہ صرف مقامی لوگ مستفید ہوسکتے ہیں بلکہ اس اقدام کا پورے باجوڑ میں مثبت اثر ہوسکتا ہے۔

رحمان نے  بتایا کہ لائبریری کھولنے کے بعد ان کے تقریبا ً30 سے 40 فیصد صارفین  میں آگاہی آئی ہیں اور اب وہ حجامت سے پہلے انتظار کے دوران مطالعے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لائبریری میں پشتو، اردو ادب، تاریخ، اسلامی کتب اور مقابلے کے امتحانات جیسی کتابیں شامل ہیں۔

’شروع شروع میں کتابیں کم ہونے کی وجہ سے مشکلات تھیں لیکن اب کافی دوستوں نے کتابیں عطیہ کرنا شروع کردی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا