پنجاب اور کے پی میں انتخابات: زمینی حقائق کیا ہیں؟

ملک کو درپیش معاشی چیلنج کے پیش نظر وزرات خزانہ نے الیکشن کمیشن سے انتخابات کے لیے اضافی گرانٹ کا مطالبہ موخر کرنے کی درخواست کی ہے۔

25 جولائی 2018 کو لاہور کے ایک پولنگ سٹیشن میں پاکستان کے عام انتخابات کے دوران لوگ اپنا ووٹ ڈال رہے ہیں (اے ایف پی/ فائل)

ملک کے دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال ہے اور یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ان صوبوں میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات ساتھ ہوں گے یا نہیں۔

ایک طرف جہاں دو صوبوں میں انتخابات سے متعلق صورت حال غیر واضح ہے وہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی)  کو حکومت کی جانب سے مطلوبہ رقم ملنے میں بھی واضح مشکلات درپیش ہیں۔

ملک کو درپیش معاشی چیلنج کے پیش نظر وزرات خزانہ نے الیکشن کمیشن سے انتخابات کے لیے اضافی گرانٹ کا مطالبہ موخر کرنے کی درخواست کی ہے۔

ای سی پی نے قومی اسمبلی کی 93 نشتوں پر ضمنی الیکشن  کے ساتھ ساتھ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے لیے 20 ارب روپے ضمنی گرانٹ اور آئندہ انتخابات کے لیے 14 ارب روپے سے زائد کی اضافی گرانٹ کی درخواست کی تھی۔

بدھ کو لکھے گئے اس خط میں کہا گیا کہ الیکشن اخراجات کے لیے ای سی پی نے 52 ارب روپے کی درخواست کی، جس کے بعد وزارت خزانہ کی درخواست پر اسے کم کر کے 47 ارب روپے کیا گیا۔

خط کے مطابق ان میں سے پانچ ارب جاری کیے گئے جبکہ 10 ارب کے اجرا سے متعلق کام جاری ہے۔

وزارت خزانہ نے معاشی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے حکومت غیر معمولی معاشی بحران اور مالی خسارے کا شکار ہے۔

ایسے میں حکومت کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لیے فنڈز فراہم کرنے اور مردم شماری بھی کروانی ہے۔ جس سے غیر طے شدہ  اور  بغیر بجٹ اخراجات  سے اضافی معاشی بوجھ پڑے گا۔ ملک اس وقت آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت ہے جس کے بہت سخت اہداف ہیں۔

دوسری جانب بدھ کو وزارت دفاع نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی اور  قومی اسمبلی کی 93 نشستوں پر ضمنی انتخابات پر رینجرز اور ایف سی  کی تعیناتی سے معذرت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلح افواج کی تعیناتی قابل عمل نہیں ہے۔

وزارت دفاع کی جانب سے سیکریٹری داخلہ کو لکھے گئے خط میں ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات اور مردم شماری کے عمل میں مصروفیت معذرت کی وجہ بتائی گئی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے لیے جوڈیشل افسران کی بطور ریٹرنگ افسران اور ڈسٹرکٹ ار آو فراہمی  سے معزرت کی ہے۔

رجسٹرار ہائی کورٹ نے سیکریٹری الیکشن کمیشن کو خط میں ’چیف جسٹس کے احکامات کے مطابق الیکشن پر جوڈیشل افسران کی فراہمی سے قاصر‘ بتایا ہے۔

پنجاب میں اس وقت 13 لاکھ 12 ہزار سے زائد زیر التوا کیسز ہیں اور جوڈیشل افسران کی فراہمی سے کیسز کا التوا مزید بڑھے گا۔ پنجاب میں پہلے ہی 825 جوڈیشل افسران کی کمی ہے۔

کیا انتخابات تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں؟

موجودہ سیاسی بحران کے پیش نظر سیاسی منظر نامہ کے حوالے سے کئی سوالات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ایسی صورت حال میں کیا واقعی انتخابات کروانا ممکن بھی ہیں یا نہیں؟ کیا انتخابات میں تاخیر کی جا سکتی ہے؟

ماہر قانون سید قلب حسن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق انتخابات میں تاخیر کا جواز نہیں بنتا اور حکومت بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کی خواہش مند ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’آئینی اعتبار سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی اپنی مدت ہے، تحلیل ہونے والی اسمبلی کے انتخابات 90 روز میں ہو جانے چاہئیں۔‘

پارلیمانی امور کے ماہر احمد بلال محبوب نے بیان میں کہا کہ آئین کے مطابق 90 روز میں الیکشن لازمی کروانے ہوں گے۔

’انتخابات الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 کے مطابق صدر کو ای سی پی سے مشاورت کے بعد انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرنا ہوتا ہے جبکہ ای سی پی سات دن میں الیکشن پروگرام کا اعلان کرے گا۔‘

آئینی ماہر وسیم سجاد نے کہا کہ اسمبلی کی تحلیل کے 90 روز کے اندر انتخابات ہونا آئین کا تقاضہ ہے اور نگراں حکومت کی مدت میں طوالت کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ کسی ہنگامی صورت حال جس کا حل ممکن نہیں، ایسے میں انتخابات میں تاخیر کا جواز نکالا جاسکتا ہے لیکن عام حالات میں ایسا نہیں ہو سکتا۔

دیکھا جائے تو ایمرجنسی لگانے سے متعلق آئین کے آرٹیکل 232 میں ’جنگ یا بیرونی جارحیت اور داخلی خلفشار‘ کو وجوہات کے طور پر پیش کیا گیا ہے جن پر صوبہ قابو نہ پا سکے۔

آرٹیکل کے مطابق اگر صوبے میں داخلی خلفشار کی وجہ سے ایمرجنسی کا نفاذ ناگزیر ہو تو صوبے کی اسمبلی ایک قرارداد منظور کرے گی۔

صدربھی ایمرجنسی کا نفاذ کر سکتے ہیں لیکن اس صورت میں معاملے کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کیا جائے گا جنہوں نے 10 روز کے اندر اس کی منظوری دینی ہوگی۔

ایمرجنسی کی مدت دو ماہ ہوگی اور مشترکہ اجلاس میں اس کی توسیع کی منظوری دی جا سکتی ہے، اگر یہ منظوری نہ دی گئی تو دو ماہ بعد ایمرجنسی ختم ہو جائے گی۔

آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت ایمرجنسی کے اعلان کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔

یہ ایمرجنسی صرف دو ماہ کے لیے لگائی جاسکتی ہے لیکن پارلیمان کا مشترکہ اجلاس اس میں مزید دو ماہ کی توسیع کرسکتا ہے۔ مجموعی طور پر ایمرجنسی میں زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کی توسیع کی جاسکتی ہے۔

اس سے قبل الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات نو اپریل سے 13 اپریل اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے انتخابات 15 سے 17 اپریل کے درمیان کرانے کی تجویز دی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست