الیکشن 90 روز میں ہونے ہیں اس پر عدالتی فیصلے موجود ہیں: عدالت

پنجاب میں انتخابات کروانے سے متعلق پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیے کہ ’ہم نے ایسا حکم نہیں کرنا جس پر عمل درآمد نہ ہو سکے، پھر معاملہ توہین عدالت پر چلا جاتا ہے جو اچھی روایت نہیں ہے۔‘

لاہور ہائی کورٹ کی عمارت کا بیرونی منظر (تصویر : لاہور ہائی کورٹ ویب سائٹ)

لاہور ہائی کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری اسد عمر کی جانب سے آئینی طور پر مقررہ مدت میں انتخابات یقینی بنانے کے لیے متفرق درخواستوں  پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ الیکشن 90 روز میں ہونے ہیں اور اس پر عدالتی فیصلے موجود ہیں۔

جسٹس جواد حسن پر مشتمل سنگل رکنی بینچ نے جمعرات کو اسد عمر کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران معزز جج نے ریمارکس دیے کہ ’ہم نے ایسا حکم دینا ہے جس پر عمل درآمد ہو سکے۔ پشاور ہائی کورٹ میں بھی معاملہ زیر التوا ہے، ہم نے ایسا حکم نہیں کرنا جس پر عمل درآمد نہ ہوسکے، پھر معاملہ توہین عدالت پر چلا جاتا ہے جو اچھی روایت نہیں ہے۔ آئین سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پنجاب اسمبلی کو گورنر نے تحلیل نہیں کیا، اب معاملہ الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ہے۔‘

جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیے: ’مجھے مطمئن کریں کہ کیا یہ معاملہ لارجر بینچ کو بھیجا جائے یا نہ بھیجا جائے؟ ہم نے وہ بات کرنی ہے جو آئین کہتا ہے، میں نے آئین سے باہر نہیں جانا۔ ہمیں صرف یہ بتا دیں کہ الیکشن کمیشن کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟‘

دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’آئین کے آرٹیکل 57 میں سب کچھ واضح ہے، الیکشن کمیشن پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ تین تاریخوں میں سے کوئی تاریخ دے دیں۔‘

علی ظفر نے موقف اپنایا کہ ’اگر گورنر الیکشن کی تاریخ نہیں دے رہے تو پھر صدر پاکستان الیکشن کی تاریخ دے سکتے ہیں۔ صدر پاکستان نے الیکشن کروانے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو خط بھی لکھ دیا ہے جبکہ یہاں کیس الیکشن کی تاریخ دینے کا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’الیکشن کمیشن کو 54 دن چاہییں الیکشن کروانے کے لیے۔ الیکشن کمیشن نے گورنر کو بھی لکھا کہ نو اپریل تک الیکشن کروانے ہیں، آج اسمبلی تحلیل ہوئے 24 سے 25 دن ہو چکے ہیں مگر ابھی تک تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔‘

گورنر پنجاب کا جواب

عدالت میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دینے سے متعلق کیس میں گورنر پنجاب کی جانب سے جواب بھی جمع کروایا گیا۔

گورنر نے اپنے جواب میں کہا کہ جب گورنر صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرے تو اس وقت الیکشن کی تاریخ دینا ان کی آئینی ذمہ داری ہے، مگر انہوں نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط نہیں کیے۔ گورنر آئین اور قانون کے مطابق فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

جواب میں کہا گیا کہ ’اگر گورنر نے وزیراعلیٰ کی نام نہاد ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل نہیں کی تو الیکشن کی تاریخ دینا گورنر کی ذمہ داری نہیں ہے۔ گورنر نے الیکشن کمیشن کے اختیار میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔‘

گورنر نے یہ درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کرنے کی استدعا کی اور کہا کہ درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کیس کی تیاری کے لیے مزید وقت کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے کل ہی یہ کیس دیا گیا ہے، اس لیے کیس کی تیاری کے لیے کچھ وقت دے دیا جائے۔‘

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ’انتخابات الیکشن کمیشن نے کروانے ہیں اور الیکشن کی تاریخ گورنر نے دینی ہے، ہم نےآپشن دے دیا ہے کہ الیکشن اس دوران ہونا چاہیے، ضمنی انتخابات کی تیاری الیکشن کمیشن نے خود ہی کرنی ہوتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وکیل تحریک انصاف نے مشورہ دیا کہ اگر گورنر اور الیکشن کمیشن تاریخ نہیں دے سکتے تو صدر مملکت انتخابات کی تاریخ دے دیں۔

جس پر جسٹس جواد حسن نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن ہی بتا دے کیونکہ میں گورنر کو تو نہیں کہوں گا۔‘

وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ ’اگر تاریخ کا اعلان ہو جاتا ہے اور الیکشن کمیشن اس تاریخ پر الیکشن نہیں کروا پاتا تو کیا ہو گا؟ اگر 20 ارب روپے خرچ ہونے کے بعد بھی الیکشن نہ ہو سکے تو کیا ہو گا؟‘

جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ اگر حکومت الیکشن کے لیے بجٹ ہی نہ دے تو کیا ہو گا؟

دورانِ سماعت وفاقی حکومت کے وکیل نے تحریک انصاف کی درخواست پر لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی تو تحریک انصاف کے وکلا نے اس پر اعتراض کیا۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ عدالت اپنا ذہن دے چکی ہے اس لیے لارجر بینچ بنانے کی استدعا کر رہا ہوں۔

وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ اگر عدالت رکاوٹوں کا نہیں سوچے گی تو حکم پر عملدرآمد بھی نہیں ہو سکے گا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اگر گورنر الیکشن کی تاریخ نہیں دے رہے تو الیکشن کمیشن تاریخ کا اعلان کر سکتا ہے، اس معاملے میں الیکشن کمیشن نے گورنر کو تاریخ کے لیے خود خط لکھا تھا۔

جسٹس جواد حسن نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن نے انکار نہیں کیا، آئیڈیلی تو الیکشن کی تاریخ کے لیے گورنر کو کہناچاہیے۔ دیکھنا ہوگا کہ اگر اسمبلی گورنر نے تحلیل نہیں کی تو کیا الیکشن کی تاریخ گورنر نے دینی ہے یا الیکشن کمیشن دے سکتا ہے۔

عدالت نے مزید سماعت جمعے (دس فروری) تک ملتوی کرتے ہوئے گورنر پنجاب اور الیکشن کمیشن سے مزید تفصیلی جواب جمع کروانے کی ہدایت کر دی۔

14 جنوری کو وزیر اعلیٰ کی جانب سے سمری پر دستخط کرنے کے 48 گھنٹے مکمل ہونے پر پنجاب کی صوبائی اسمبلی از خود تحلیل ہوگئی تھی۔

اس کے بعد گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے سے گریز کیا تھا۔

چنانچہ 27 جنوری کو پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

بیرسٹر علی ظفر کی وساطت سے دائر کی گئی درخواست میں گورنر پنجاب کو بذریعہ سیکرٹری فریق بنایا گیا۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ آئین کے تحت اسمبلی تحلیل ہونے کے فوری بعد گورنر کو الیکشن کا اعلان کرنا ہے، گورنر پنجاب الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کر رہے جو کہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔

پی ٹی آئی نے اپنی درخواست میں استدعا کی تھی کہ لاہور ہائی کورٹ پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے گورنر کو ہدایات جاری کرے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان