طالبان آئے نہ غیر ملکی پروفیسر رہا ہوئے

ممکن ہے یہ دونوں کام اِس وقت تک ہو جاتے اگر عمران خان امریکہ میں ان کا قبل از وقت اعلان نہ کرتے۔

دو طالبان رہنماؤں کے مطابق غیر ملکی پروفیسروں کی رہائی کے بدلے طالبان کے نائب امیرسراج الدین کے بھائی انس حقانی اوردیگر دس طالبان قیدی رہا ہوں گے(اے ایف پی)۔

وزیر اعظم عمران خان نے 22جولائی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات سے پہلے صحافیوں سے گفتگو، امریکی فاکس ٹی وی سے انٹرویو اور واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان جانے کے بعد وہ جلد طالبان سے ملاقات اور انہیں افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ کریں گے۔

عمران خان نے ان دو غیر ملکی پرفیسروں سے متعلق جلد خوشخبری کی نوید بھی سنائی تھی جن کو طالبان نے اگست 2016 میں کابل سے اغوا کیا تھا اور وہ اب تک یرغمال ہیں۔

وزیر اعظم کے دونوں اعلانات اِس وقت تک اعلانات ہی ہیں۔ یہ کام نہ ہونے کی وضاحت تو وہ لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے عمران خان کو امریکہ میں یہ خوشخبریاں سنانے کے لیے کہا ہوگا۔

ممکن ہے یہ دونوں کام اس وقت تک ہوجاتے اگر ان کا اعلان نہ ہوتا۔ کچھ معاملات میں پوائنٹ سکورنگ کے بجائے سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے۔

پاکستانی پالیسی سازوں اور افغان امور میں اہم کردار رکھنے والوں کو طالبان کے معاملات میں احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے تاکہ مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لوگوں کوآزادی سے اپنے فیصلے کرنے دیں۔

قطر میں طالبان کے ایک اعلیٰ عہدے دارنے تسلیم کیا کہ پاکستان کی مدد سے امریکی کیون کنگ اور آسٹریلوی ٹیموتی ویکس، جو کابل کی امریکی یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے اور جنہیں مسلح افراد نے اغوا کیا تھا اور بعد میں طالبان نے ان کی دو ویڈیوز جاری کی تھیں، جس میں انہوں نے طالبان کے مطالبات تسلیم کرنے کی اپیل کی تھی۔

طالبان کے دو رہنماؤں نے تصدیق کی کہ ان کی رہائی کے لیے قطر میں مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق پروفیسروں کی رہائی کے بدلے طالبان کے نائب امیرسراج الدین کے بھائی انس حقانی اوردیگر دس طالبان قیدی رہا ہوں گے۔

قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ تقریبا طے ہوچکا ہے لیکن طالبان نے شاید وقت سے پہلے اس کی تشہیر اور یہ تاثردینا کہ معاملات پاکستان کے ہاتھ میں ہیں کو پسند نہیں کیا۔

عمران خان کا طالبان سے ملاقات کا معاملہ بھی لٹک گیا۔ طالبان کے ایک رہنما سے جب عمران خان سے ملاقات میں تاخیر سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا طالبان دورہِ پاکستان کے وقت پر تقسیم ہوگئے ہیں اور قطر میں ایک اہم رہنما اور کئی دیگر کا خیال ہے پاکستان کا دورہ امریکہ کے ساتھ امن معاہدے کے بعد ہو، جس کے لیے قطر میں تین اگست کو مذاکرات شروع ہوچکے ہیں اور دونوں فریق معاہدے پر پہنچنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

ان کے بقول کئی سینیئر رہنماؤں اور مذاکراتی ٹیم کے ارکان کی یہ بھی تجویز تھی کہ امن معاہدے کا اعلان پاکستان میں ہوتاکہ پاکستان کے ساتھ طالبان کی بداعتمادی ختم ہو لیکن دیگر ارکان معاہدے کا اعلان قطر میں چاہتے ہیں کیونکہ قطر نے طالبان کو 2013 میں دوحہ میں دفتر کھولنے کے بعد سیاسی نمائندوں کو وہاں رہنے کی اجازت دی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ معلوم ہوا ہے کہ طالبان کی رہبری شوری نے بھی سیاسی نمائندوں کے پاکستان آنے کی منظوری دی ہے، لیکن اب یہ دورہ عید کے بعد ہوگا۔

چند طالبان رہنماؤں کا موقف ہے معاہدے سے پہلے پاکستان جانے کا ایک مطلب تو پاکستان کو کریڈٹ دینے کے مترادف ہوگا اور دوسرا یہ کہ پاکستان طالبان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرسکتا ہے کہ امریکہ کے کئی مطالبات مان لے۔

اس کے علاوہ پاکستان طالبان پرکابل انتظامیہ سے براہ راست مذاکرات کے لیے بھی دباؤ ڈالنے کی کوشش کرسکتا ہے، جس سے وہ اس وقت تک انکاری ہیں جب تک امریکہ غیر ملکی افواج کے نکلنے کے لیے نظام الاوقات کا اعلان نہ کرے۔

طالبان نے خود کئی مرتبہ کہا کہ امریکہ سے معاہدے کے بعد دو ہفتے میں ناروے میں بین الافغانی مذاکرات ہوں گے، جس میں حکومت بھی ایک افغان فریق کی حیثیت سے شامل ہوگی تاکہ افغانستان کے مستقبل کے نظام سے متعلق مشورے ہوں، جس کا طالبان بھی حصہ ہوسکتے ہیں۔

اب جبکہ طالبان اور امریکہ براہ راست مذاکرات میں کافی معاملات طے ہوچکے ہیں اور بین الافغانی مذاکرات کا اعلان بھی ہوچکا ہے تو اس حساس موقع پر پاکستان سمیت کسی بھی ملک کا اثر انداز ہونے کی کوشش غیرضروری ہے۔

امریکہ کے لیے بھی یہ بہتر ہوگا کہ طالبان سے معاملات طے کرنے کے بعد بین الافغانی مذاکرات کی کامیابی کے لیے کوشش کی جائے۔

طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ باضابطہ دعوت ملنے کے بعد وہ پاکستان جائیں گے۔ طالبان اس سے پہلے روس، چین، ایران، انڈونیشیا، ازبکستان، جاپان اور کئی یورپی ممالک کے دورے کرچکے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا