انڈیا کی طرح پاکستان میں بھی مارچ میں ہیٹ ویو کی پیش گوئی

پاکستان کے محکمہ موسمیات کی ماہانہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مارچ کے دوسرے ہفتے سے خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور کشمیر میں درجہ حرارت میں اضافے کا امکان ہے۔

ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کے گذشتہ سال کے ایک مطالعے سے پتہ چلا کہ موسمیاتی بحران نے انڈیا اور پاکستان میں ہیٹ ویوز کا خدشہ 30 گنا زیادہ کر دیا۔ (اے ایف پی)

انڈیا میں جہاں ماہرین موسمیات اس سال مارچ سے مئی کے دوران شدید گرمی کی پیش گوئی کر رہے ہیں، وہیں پاکستان میں رواں ماہ زیادہ بارشوں کی توقع کی جا رہی ہے۔

دونوں صورتوں میں مقامی فصلوں جیسے کہ گندم کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

پاکستان میں ماہر موسمیات ڈاکٹر محمد حنیف نے انڈپینڈنٹ اردو کو موسمی تبدیلیوں کا حال بتاتے ہوئے کہا جب فروری خشک اور گرم ہو تو عموماً مارچ میں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ رواں برس چونکہ فروری خشک تھا اور قدرے گرم بھی، اس لیے مارچ میں بارشیں زیادہ ہوں گی جو توقع ہے مہینے کے دوسرے ہفتے کے اختتام سے شروع ہوں گی۔

تاہم پاکستان کے محکمہ موسمیات کی مارچ کی رپورٹ زیادہ درج حرارت کی پیش گوئی کر رہی ہے۔

سرکاری ویب سائٹ پر دستیاب رپورٹ کے مطابق ’موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے مارچ 2023 کے دوران ملک بھر میں دن کے اوقات میں درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا اور توقع ہے درجہ حرارت ملک کے زیادہ تر حصوں میں معمول سے اوپر رہیں گے۔

’مارچ 2023 کے دوسرے ہفتے سے خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور کشمیر میں درجہ حرارت میں اضافے کا امکان ہے اور یہ پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں گلیشیئرز کے جلد پگھلنے کا سبب بن سکتا ہے۔‘

پاکستان کے مقابلے میں انڈیا میں ماہرین کی بارشوں سے متعلق پیس گوئی مختلف ہے۔

نجی موسمیاتی ایجنسی سکائی میٹ کے ماہر موسمیات مہیش پلووت نے برطانیہ کے ڈیجیٹل اخبار دی انڈپینڈنٹ کو بتایا ’گرم موسم یہاں رہنے کے لیے ہے اور ہمیں اسے ایک نیا معمول سمجھنا شروع کر دینا چاہیے۔

’یہ دیکھا گیا ہے کہ پچھلے کئی سالوں میں مارچ کے دوران بارشوں میں کمی آئی۔ موسمیاتی ماڈل اس سال بھی اسی طرح کے (انڈیا میں) حالات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔‘

پاکستان کے محکمہ موسمیات کی رپورٹ درجہ حرارت میں اضافے کے اثرارت کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہے کہ معمول سے زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے ربیع کی فصلیں بشمول گندم خاص طور پر ملک کے نچلے جنوبی نصف حصے میں قبل از وقت کٹائی کے لیے تیار ہوجائیں گی۔

درجہ حرارت میں اضافہ بڑے شہروں (جیسے اسلام آباد، لاہور) میں پولن سیزن کے جلد آغاز کا سبب بنے گا۔

درجہ حرارت میں اضافہ تیز ہواؤں، گرد و غبار اور ژالہ باری کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

دی انڈپینڈنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2022 میں ریکارڈ توڑنے والے درجہ حرارت کے بعد انڈیا کو اس سال پھر ایک اور ہیٹ ویو کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس سے گندم کی فصل اور توانائی کی فراہمی پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔

انڈیا کے محکمہ موسمیات نے ایک حالیہ الرٹ میں کہا کہ 1901 میں ریکارڈ شروع ہونے کے بعد سے فروری سب سے زیادہ گرم ہونے کے بعد اس سال مارچ اور مئی کے درمیان ملک میں ہیٹ ویو کا امکان ہے۔

ڈاکٹر محمد حنیف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ان بارشوں کا فصلوں خاص طور پر گندم کی فصل پر بہت برا اثر ہوگا کیونکہ مارچ میں گندم کو بہت زیادہ پانی نہیں چاہیے ہوتا۔ بارشوں کے نتیجے میں انہیں نقصان ہوسکتا ہے۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس بار ملک کو گندم اور دیگر فصلیں پہلے کی طرح نہیں ملیں گی کیونکہ اس بار فصلوں کی کٹائی کے وقت بارشیں آئیں گی جن کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔

انہوں نے بتایا کہ مارچ کے دوسرے ہفتے کے آخر سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں بارشیں شروع ہو جائیں گی۔ 

ان کا کہنا تھا کہ کلائمیٹ چینج کے اشاریے پاکستان میں بہت تیزی سے واضع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

ان کا اصرار تھا کہ گذشتہ چند برسوں میں اس کی علامات اور اثرات بھی زیادہ سامنے آئے ہیں۔

یہ انتباہ ایک نئی تحقیق کے بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا کہ اس سال ال نینو کے رجحان کا زیادہ امکان ہے، جس سے عالمی درجہ حرارت میں اس سے بھی زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے جو گذشتہ چند سالوں میں دیکھا گیا تھا۔

موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل (IPCC) نے 2022 میں شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں پیش گوئی کی کہ آنے والے برسوں میں انڈیا میں گرمی کی لہریں زیادہ اور مزید شدید ہو جائیں گی۔

آئی پی سی سی کے مصنف انجل پرکاش کہتے ہیں کہ ’موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بھارت میں گرمی کی لہروں کا امکان بڑھے گا۔

’آئی پی سی سی کی رپورٹس اور موسمیاتی سائنس دانوں نے ملک میں گرمی کی لہروں کی تعدد اور شدت پر گلوبل وارمنگ کے اثرات کے بارے میں خبردار کیا ہے۔‘

ڈاکٹر حنیف کا کہنا تھا: 'پچھلے سال پاکستان میں سب کو یاد ہو گا کہ گرمی بہت جلد آئی تھی اور مارچ، اپریل اور مئی نہ صرف خشک تھے بلکہ انتہائی گرم تھے جو بعد میں انتہائی درجے کے سیلاب کا سبب بنے لیکن اس برس صورت حال ویسی دکھائی نہیں دے رہی۔

’لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سیلاب مئی اور جون کے درجہ حرارت پر منحصر ہے۔ اس برس سیلاب گذشتہ برس سے زیادہ ہوگا یا کم اس حوالے سے کچھ کہنا فی الحال مشکل ہے۔'

دوسری جانب ماہر زراعت ڈاکٹر صغیر احمد نے کہا کہ ’بنیادی طور پر موسمی تبدیلیوں کا اثر ہماری گندم اور آم کی فصلوں پر زیادہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں ہماری سالانہ پیداوار میں اچھی خاصی کمی واقعہ ہوئی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں ابھی کچھ علاقوں میں گیا اور کھڑی ہوئی گندم کی فصل کا معائنہ کیا تو اندازہ ہوا کہ ہماری گندم کے دانے چھوٹے ہیں اور ان کی پوری طرح نشونما نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے اس کی پیداوار میں کمی واقعہ ہو رہی ہے۔‘

انہوں نے مارچ اور اپریل میں درجہ حرارت بڑھنے کے حوالے سے کہا کہ یہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت گندم کی پیداوار کے لیے ٹھیک نہیں اور گندم صحیح طریقے سے پھول نہیں پاتی اگر یہی حالات رہے تو پاکستان کو گندم کی مجموعی پیداوار میں 25 ملین میٹرک ٹن تک کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

انڈیا میں گذشتہ برس گرمی کی لہر کی وجہ سے گندم کی پیداوار میں کمی ہوئی جس کے باعث حکومت نے گندم کی برآمد پر پابندی لگا دی تھی۔

اس وجہ سے گندم کی عالمی رسد بھی متاثر ہوئی جو پہلے ہی یوکرین میں جنگ کی وجہ سے شدید متاثر تھی۔

ماہر ماحولیات رافع عالم بھی موسموں کے بدلتے تیور دیکھ کر فکرمند ہیں۔ ان کا کہنا تھا: 'صنعتی انقلاب کے سبب دیکھا جائے تو پوری دنیا پچھلے اڑھائی سو سال میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ گرم ہو چکی ہے۔‘

انہوں نے ورلڈ بینک کی گذشتہ سال کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا درجہ حرارت معمول سے دو سے اڑھائی ڈگری سینٹی گریڈ گرم ہو چکا ہے اور یہ درجہ حرارت بڑھتے رہیں گے تب تک جب تک ہم گرین ہاؤس گیسسز فضا میں خارج کرتے رہیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رافع کے بقول: 'سائنس دان بتاتے ہیں کہ اس صدی کے آخر تک دنیا کا درجہ حرارت دو سے اڑھائی ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے گا۔

’اس لحاط سے چونکہ پاکستان پہلے سے گرم ہے اس لیے ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا درجہ حرارت چار سے پانچ ڈگری تک بڑھ جانے کا خدشہ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ چار یا پانچ ڈگری بڑھنے سے کوئی بوائی نہیں ہوسکتی جو درخت لگے ہیں وہ سب مر جائیں گے۔

’گذشتہ برس مارچ میں گرمی کی لہر تھی جو دنیا بھر میں دیکھی گئی۔ ہیٹ ویو سے بارشوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اور گذشتہ سال ہمارے ہاں بارشوں کا سلسلہ اسی گرمی کی لہر کا نتیجہ تھیں۔‘

انہوں نے بتایا: 'پچھلے سال برسات کی بارش کی 70 فیصد شدت اس ایک ڈگری سینٹی گریڈ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے تھی جو کہ پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر بڑے ممالک پر بھی اثر انداز ہوئی، گذشتہ سال والی صورت حال دوبارہ ہوگی اس سال نہیں تو اگلے سال ہوگی۔‘

رافع کہتے ہیں: 'ہم کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتے، ہمیں صرف یہ معلوم ہے کہ درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے جس سے موسم تبدیل ہو چکے ہیں اور ہمیں یہی نظر آ رہا ہے کہ چھ سے نو مہینے گرمی کا موسم ہوگا اور باقی کے مہینوں میں ہم شدید ہوائی آلودگی کا شکار بنیں گے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ انہی موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے خوراک کا بحران  اس وقت  بین القوامی سطح پر چل رہا ہے کیونکہ گلوبل وارمنگ سے فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ پاکستان میں بھی گذشتہ برس ہیٹ ویو کے نتیجے میں بلوچستان میں پھل ختم ہوگئے، ملتان میں آم کی پیداوار تباہ ہوئی، ابھی ہم ہیٹ ویو کا جائزہ ہی لے رہے تھے کہ سیلاب آگئے جس سے سندھ اور بلوچستان میں جو بھی زراعت تھی انہیں تباہ کر دیا۔

رافع کے مطابق: 'پنجاب میں صرف تین یا چار اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے، خیبر پختونخواہ میں زراعت ہوتی نہیں ہیں۔ دیکھا جائے تو گذشتہ برس انتہائی درجے کی تباہی ہوئی۔ سندھ کے اندر کپاس اور گندم ختم ہوگئی تھی وہاں تو ابھی بھی کچھ جگہوں پر پانی موجود ہے اور تقریبا ایک کروڑ سے زائد پاکستانی سیلاب کی وجہ سے اس وقت بھی بےگھر ہیں۔

انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹراپیکل میٹرولوجی کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ چند دہائیوں کے دوران گرمی کی لہر کی تعداد میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس رجحان کے جاری رہنے کی توقع ہے۔

ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کے گذشتہ سال کے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ موسمیاتی بحران نے انڈیا اور پاکستان میں ہیٹ ویوز کا امکان 30 گنا زیادہ کر دیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات