پاؤں سے تصاویر بنانے والے کوئٹہ کے مصور

کوئٹہ کے علی گوہر اپنے ہاتھ استعمال کیے بغیر سکیچز اور دوسری تصاویر بناتے ہیں۔

’وہ ایک عام دن تھا، میں پتنگ اڑا رہا تھا، جسے نیچے اتارتے ہوئے وہ بجلی کے تار میں اٹک گئی اور مجھے کرنٹ لگا۔ کوئٹہ کے بولان میڈیکل کالج ہسپتال میں میرا علاج ہوا لیکن میرے ہاتھوں کے زخم خراب ہونے لگے اور مجھے کراچی لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے میرے ہاتھ کاٹ دیے اور اس طرح میں ہمیشہ کے لیے ہاتھوں سے محروم ہو گیا۔‘

یہ  کہانی ہے کوئٹہ کے ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والےعلی گوہر کی، جو ہاتھ نہ ہونے کے باعث پیروں سے خاکے اور دوسری تصاویر بناتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں علی گوہر نے بتایا: ’وہ بہت مشکل مرحلہ تھا، جب آپ وہ کام کریں جو ہاتھ کے بجائے پیروں سے کرنا پڑے، میں بعض اوقات تھک کر مایوس ہو جاتا تھا اور پینسل پھینک دیتا تھا، لیکن پھر اگلے ہی لمحے اسے اٹھا بھی لیتا۔

’کام مشکل تھا، لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور گھر والوں کی حوصلہ افزائی نے مجھے ہاتھ نہ ہونے کے باوجود فنکار بننے میں بہت مدد کی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بچپن میں علی گوہر کی ڈرائنگ بہت کمزور ہوا کرتی تھی، تاہم ان کا کہنا تھا: ’میں نے اپنی اسی کمزوری کو طاقت بنا لیا، بچپن میں جو میں نہیں کر سکتا تھا، آج میں ڈرائینگ اور سکیچنگ کے ذریعے تصاویر بناتا ہوں، جو میری طاقت ہے۔‘

فروری 2015 میں کرنٹ لگنے کے حادثے اور بعد ازاں ہاتھوں کے کٹ جانے کے بعد علی گوہر نے پاؤں استعمال کرتے ہوئے تصاویر بنانا شروع کیں۔

شروع میں انہوں نے لیپ ٹاپ اور آئی پیڈ پر مصوری کی اور پھر آہستہ آہستہ کاغذ پر تصاویر بنانا شروع کیں۔ 

’اب میں آرٹ کے علاوہ ڈیجیٹل ڈیزائننگ اورویب سائٹ بنانے کا کام بھی سیکھ رہا ہوں، تاکہ اس شعبے میں بھی کچھ مہارت حاصل کر سکوں۔‘

علی گوہر ایک آرٹسٹ کے علاوہ گرافک ڈیزائنر بھی ہیں اور ایسا اس لیے ہے کہ انہوں نے فن مصوری کی ابتدا ہی کمپیوٹر سے کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ جو تصاویر وہ بناتے ہیں وہ ان کی اپنی تخلیق ہوتی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا