حیدرآباد: نعل سازی کا قدیم ہنر جسے اب کوئی سیکھنا نہیں چاہتا

حیدرآباد میں نعل سازی کا ہنر ایک وقت میں خاص شہرت رکھتا تھا لیکن اب جدید دور میں یہ پیشہ دم توڑتا جا رہا ہے۔

حیدرآباد میں نعل سازی کا ہنر ایک وقت میں خاص شہرت رکھتا تھا لیکن اب جدید دور میں یہ ہنر دم توڑتا جا رہا ہے اور اس سے وابستہ ہنر مند افراد بے روزگار ہو گئے ہیں۔

یوں تو نعل سازی کا ہنر صدیوں پرانا ہے لیکن جدید دور میں یہ کام تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے تاہم آج بھی گھڑ ریس اور گدھا گاڑی چلانے والے افراد اس ہنر کو کسی حد تک بچائے ہوئے ہیں۔

حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ایک نعل ساز شہزاد کا کہنا ہے کہ ’میں 40 سالوں سے یہ کام کر رہا ہوں۔ پہلے گھوڑے کے پیر بناتے ہیں۔ چھیلتے ہیں پھر سیٹنگ کرتے ہیں اور سیٹنگ کرنے کے بعد نعل لگاتے ہیں۔ نعل لگانے کے بعد تیلے نکالتے ہیں اور اس کے بعد ریتی لگاتے ہیں۔ اس کے بعد ہم پیسے لیتے ہیں۔ نعل اس لیے بنواتے ہیں کہ گھوڑا اور گدھا اس کے بغیر چل نہیں سکتے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق ’نعل سے ہی ان کی رفتار میں اضافہ ہوتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’یہ کام آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے کیوں کہ پہلے دور میں تانگوں کا رواج تھا اور اب گھوڑے بھی ختم ہو گئے ہیں اور یہ کام بہت کم رہ گیا ہے اور وہ یہی کر کے ہم اپنا گزر بسر کر رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’میلوں میں کچھ شوقین افراد کی وجہ سے یہ ہنر پچا ہوا ہے۔ میں نے یہ ہنر استاد رمضان سے سیکھا ہے اور میں ابھی تک کر رہا ہوں۔‘

 انہوں نے بتایا کہ ’نعل سازی میں سب سے پہلے لوہار لوہے کو بھٹی میں تیار کرتا ہے اور پھر اس کو ڈھال کر ہمیں دیتا ہے، جسے ہم گھوڑے کو لگاتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’یہ گھوڑے کی چپل ہے جس کے بغیر وہ چل نہیں سکتا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’یہ کام اب ختم ہو گیا اور کوئی بھی شاگرد یہ ہنر سیکھنے نہیں آتا۔ میں نے یہ ہنر اپنے بیٹوں کو بھی نہیں سکھایا کیوں کہ میں ان کی زندگی برباد نہیں کرنا چاہتا جیسے یہ ہنر سیکھ کر میری زندگی برباد ہوئی ہے۔‘

حیدرآباد میں نعل سازی کا ہنر ایک وقت میں خاص شہرت رکھتا تھا لیکن اب جدید دور میں یہ پیشہ دم توڑتا جا رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا