الیکشن کمیشن انتخابات موخر کرنے کا مجاز ہے

ماضی میں الیکشن کمیشن نے ناگزیر وجوہ کی بنا پر کئی بار ضمنی اور عام انتخابات کے شیڈول میں ردوبدل کیا اور اس اقدام کو کبھی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا گیا۔

تحریکِ انصاف نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے (پبلک ڈومین)

سپریم کورٹ نے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں التوا سے متعلق ایک کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے آٹھ اکتوبر کو پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

اعلی عدالت کے تین رکنی بینچ نے گذشتہ روز فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کو موخر کرنے کا غیر قانونی اور غیر آئینی حکم دیا، کیوں کہ پاکستانی آئین انتخابات کو 90 روز سے آگے جانے کی اجازت نہیں دیتا۔

لیکن دوسری عوامی نمائندگی ایکٹ 1976 کی شق 108 کے، جو اب الیکشن ایکٹ مجریہ 2017 کی شق 58 میں شامل ہے، تحت الیکشن کمیشن کو، جو ایک آئینی اور خودمختار ادارہ ہے، آئین کے آرٹیکل 218(3) کے تحت وسیع اختیارات حاصل ہیں۔

اس شق کے تحت الیکشن کمیشن انتخابات کا شیڈول تبدیل کرنے کا مجاز ہے اور اس کی ماضی میں کئی مثالیں ملتی ہیں۔

ماضی میں الیکشن کمیشن ناگزیر وجوہ کی بنا پر الیکشن شیڈول میں 60 دن کی بجائے کئی کئی تاریخوں میں ضمنی الیکشن اور جنرل الیکشن کرا چکا ہے، اس کو کبھی بھی کسی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا گیا۔

اس حوالے سے الیکشن کمیشن میں کئی مثالیں موجود ہیں جس کے مطابق الیکشن ایکٹ مجریہ 2017 کی دفعہ 58 کے تحت الیکشن کمیشن ناگزیر حالات کی بنا پر الیکشن شیڈول میں رد و بدل کرنے کا مجاز ہے، حتیٰ کہ عوامی نمائندگی ایکٹ مجریہ 1976 کی دفعہ 108 میں بھی یہ بات شامل رہی کہ الیکشن کمیشن ملکی صورت حال کی بنا پر الیکشن شیڈول میں رد و بدل کا اختیار رکھتا ہے۔

الیکشن کمیشن ناصرف الیکشن شیڈول تبدیل کرنے کا مجاز ہے بلکہ عوامی نمائندگی ایک ایکٹ مجریہ 1976 کے تحت اس نے بار بار عوامی نمائندگی کے ایکٹ 76 کی دفعہ 108 کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے جنرل اور ضمنی انتخابات کی تاریخوں میں رد و بدل کیا۔ یہ دفعہ 108 آج بھی الیکشن کمیشن کے الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 58 میں شامل ہے۔

1993 میں جب ایم کیو ایم کے 14 ارکان قومی اسمبلی اور 25 اراکین صوبائی اسمبلی نے اجتماعی استعفے دیے تھے اور اس وقت کے قومی اسمبلی کے سپیکر گوہر ایوب خان نے انہیں منظور کر لیا تھا تو اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس نعیم الدین نے کراچی، حیدرآباد کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے 60 دن کی بجائے ضمنی انتخابات چار مہینے بعد کرائے۔

اسی طرح نومبر 1994 میں صوبہ سرحد اسمبلی کے دو ارکان کا سوات میں قتل ہوا تو الیکشن کمیشن کے اس وقت کے کمشنر جسٹس سردار فخرعالم نے 60 دنوں کی بجائے امن و امان کی صورت حال بہتر ہونے پر عوامی نمائندگی ایکٹ مجریہ 1976 کی شق 108کے تحت چار مہینوں بعد الیکشن کرائے۔

اسی طرح کرم ایجنسی کے صدر مقام پارہ چنار میں دہشت گردی کے اندوہناک واقعے میں متعدد افراد جان سے گئے تو الیکشن کمیشن کے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس قاضی محمد فاروق نے ضمنی الیکشن تین چار ماہ بعد کرائے۔

اسی طرح 27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ راولپنڈی میں سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے قتل کے بعد جنرل الیکشن آٹھ جنوری، 2008 کی بجائے 18 فروری، 2008 کو کروائے گئے۔

اسی طرح فروری 2008 کے الیکشن میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی خالی کردہ نشستوں پر جو آئین کے آرٹیکل 223 کے تحت ایک سے زائد نشستوں کے خالی ہونے پر ضمنی الیکشن جو 60 دنوں میں ہونے تھے، پانچ ماہ کی تاخیر سے کروائے گئے۔

ستمبر 2009 میں لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 117، جس میں نواز شریف بھی امیدوار تھے، وہاں ضمنی الیکشن 60 دن کی بجائے اس وقت کے چیف سیکرٹری پنجاب جاوید محمود کی طرف سے امن و امان کی خراب صورت حال اور دہشت گردی کے خطرے کی 200 صفحات کی رپورٹ آنے پر الیکشن کمیشن کے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس حامد علی مرزا نے عوامی نمائندگی کے ایکٹ مجریہ 1976 کی دفعہ 108 کے تحت ضمنی الیکشن دو ماہ کے لیے ملتوی کر دیے۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے امن و امان کی خراب صورت حال کی بنا پر عام انتخابات یا ضمنی انتخاب کا شیڈول آگے جاتے تو کسی ہائی کورٹ یا عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج نہیں کیا گیا کیونکہ عملے میں نمائندگی کے ایکٹ حجریہ 1976 اور اس کی جگہ بننے والے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کی دفعہ 58 میں عوامی نمائندگی ایکٹ مجریہ 1976 کی شق 108 میں ضم کر دی گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس میں دو ٹوک الفاظ میں درج ہے کہ امن و امان کی خراب صورت حال یا دوسری ناگزیر وجوہات کی بنا پر الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخوں کو آگے لے جانے کا مجاز ہے۔

الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 57 میں کہا گیا ہے کہ صدر پاکستان قومی اسمبلی کے عام انتخابات کی تاریخ متعین کرنے کے لیے الیکشن کمیشن سے مشاورت کرنے کا پابند ہے۔

الیکشن کمیشن ناگزیر وجوہات کی بنا پر تاریخوں میں رد و بدل کرتا ہے تو صدر مملکت کو اس کی اطلاع دینی الیکشن کمیشن کے لیے ضروری ہے۔

اسی قانونی شق کے مطابق الیکشن کمیشن نے صدر پاکستان ڈاکٹر عارف حسین علوی کو اطلاع اسی مقام 22 مارچ، 2023 کو دے دی تھی جس کے تحت الیکشن کمیشن نے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے اعلیٰ صوبائی حکام اور ملک کی حساس ترین ایجنسیوں کے اعلیٰ مقام اور سیکریٹری وزارت دفاع کی جامع بریفنگ ملنے پر پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ آٹھ اکتوبر، 2023 کرنے کی قانون کے تحت اطلاع صدر پاکستان کو دے دی تھی مگر صدر مملکت نے اس پر کوئی زبانی یا تحریری ردعمل نہیں دیا۔

انہوں نے الیکشن کمیشن کی بجائے وزیراعظم شہباز شریف کو چار صفحات پر مبنی خط لکھ دیا اور وزیراعظم کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دینے کا عندیہ بھی دے دیا۔ مگر اصولی طور پر صدر مملکت کو الیکشن کمیشن کو اپنا نقطہ نظر بھجوانا چاہیے تھا۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ