پاکستانی وزارتِ خارجہ نے برطانوی وزیر داخلہ سویلا بریورمین کے پاکستانی مردوں کے حوالے سے بیان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ترجمان دفترِ خارجہ ایک بدھ کو ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ ’برطانوی وزیر داخلہ کا بیان خطرناک رجحانات کو فروغ دے گا۔‘
دو روز قبل برطانوی چینل ’سکائی نیوز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے برطانیہ کی وزیرِ داخلہ سوویلا بریورمین نے کہا تھا کہ ’پاکستانی برطانوی مرد عورتوں کو کمینگی سے اور غلط طریقے سے دیکھتے ہیں، اور ہمارے رویے کے بارے میں ان کا انداز پرانا اور نفرت انگیز ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’برطانی پاکستانی مردوں کے گینگ سفید فام لڑکیوں کا پیچھا کرتے ہیں، انہیں منشیات کھلاتے ہیں اور ان کا ریپ کرتے ہیں۔‘
بریورمین کو اس بیان کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔
By ignoring all of the actual evidence uncovered by her own department on race and child abuse, Suella Braverman is not so much taking an "evidence-based" approach to policy making as she is taking a race-based approach to evidence making. https://t.co/XFkAhnWypz
— Adam Bienkov (@AdamBienkov) April 3, 2023
بریورمین کے بیان کے برخلاف 2020 میں برطانوی ہوم آفس کی ایک رپورٹ کے مطابق جنسی جرائم میں ملوث گروپ ’اکثر اوقات سفید فام‘ افراد پر مشتمل ہوتے ہیں اور اس بات کے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ کوئی ایک نسلی گروہ بچوں کے جنسی استحصال میں دوسروں سے زیادہ ملوث ہے۔
اس کے جواب میں سابق چیف کراؤن پراسیکیوٹر نذیر افضل نے کہا کہ ’اس ملک میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم کرنے والے سفید فام مرد ہیں، لیکن ہماری توجہ بھورے مردوں پر زیادہ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انصاف کے نظام میں گڑبڑ ہے۔ اگر آپ آج ایک الزام لگائیں تو 70 میں سے ایک پر فردِ جرم عائد ہوتی ہے اور سو میں سے ایک کو سزا ہوتی ہے۔
صحافی ایڈم بیئنکوف نے ٹوئٹر پر لکھا، ’بچوں کے استحصال اور نسل کے بارے میں اصل شواہد، جو ان کے اپنے محکمے نے معلوم کیے تھے، ان سب کو نظر انداز کر کے سویلا بریورمین پالیسی سازی کے لیے ’شواہد پر مبنی‘ طریقۂ کار نہیں بلکہ نسل پر مبنی طریقۂ کار استعمال کر رہی ہیں۔
گذشتہ برس دسمبر میں ’گرومنگ گینگز‘ کی ایک دہائی کی بحث میں ایک اہم لمحہ آیا جب برطانیہ کے ہوم آفس کی ایک اہم رپورٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس بات کا کوئی قابل اعتبار ثبوت نہیں ہیں کہ بچوں کے جنسی استحصال کے معاملات میں کسی ایک نسلی گروہ کی زیادہ نمائندگی ہے۔
برطانیہ میں بہت سے لوگوں کے لیے ’گرومنگ گینگ‘ کی اصطلاح فوری طور پر پاکستانی نژاد مسلمان مردوں کو سفید فام لڑکیوں کے ساتھ بدسلوکی کا تاثر دیتی ہے، لیکن ہوم آفس کے محققین نے بتایا کہ ’تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ گروہ پر مبنی مجرم زیادہ تر سفید فام ہوتے ہیں۔‘