ملیے سکردو کے ’اکبر پاکستانی‘ سے۔ سفید ٹوپی پر مور کے پنکھ کی کلغی، سفیدی مائل مونچھیں جن پر کالا رنگ چڑھا ہوا اور بدن پر استری شدہ سوٹ، چاک وچوبند، فر فر اردو میں گلگت سکاؤٹس، این ایل آئی، جنگ آزادی گلگت بلتستان اور علاقے کی تاریخ سب کے سامنے ایک ہی سانس میں سنانے والے۔
ان کا اصل نام تو اکبر حسین ہے مگر یہ ’اکبر پاکستانی‘ کے نام سے ہی مشہور ہیں۔
اکبر پاکستانی بونجی سینٹر آنے والے مہمانوں کو بریفنگ دیتے ہیں۔ جن لوگوں کو اکبر پاکستانی نے بریفنگ دی ہے ان میں صدر عارف علوی، جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ، جنرل (ر) پرویز مشرف، جنرل زبیر حیات، نیول چیف ظفر عباس، ایئر چیف سہیل امان، سابق کرکٹ کپتان مصباح الحق اور بہت سے دوسرے مشاہیر شامل ہیں۔
اس کےعلاوہ انہوں نے علاوہ کور کمانڈروں، وزرائے اعلیٰ اور دیگر سماجی و سیاسی شخصیات کو بھی گلگت بلتستان، این ایل آئی اور جنگ آزادی گلگت بلتستان کے حوالے سے مرصع اور جامع بریفنگ دینے کا اعزاز حاصل کیا ہے اور یہ سفر ہنوز جاری ہے۔
ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں کئی میڈلز اور اعزازات سے نوازا گیا ہے جن میں سیاچن میڈل، جمہوریت میڈل، تمغہ بقا، تمغہ استقلال، یو این امن مشن میڈل، گڈ سروس میڈل، آپریشن کوہ پیما میڈل، میڈل ردالفساد اور میڈل راہ راست نمایاں ہیں۔
اکبر پاکستانی بونجی سینٹر میں آنے والوں کو گلگت بلتستان کی تاریخ، خاص طور پر جنگ آزادی کے ہیروز کی کہانی بھی ایسے سناتے ہیں جیسے کل کی بات ہو۔ لیکن یہ سب کیسے ممکن ہوا، اس کی پیچھے ایک کہانی ہے۔
تاریخ سے شغف
اکبر پاکستانی کا سکردو حاجی گام سے تعلق ہے اور ان کے اجداد بھی چک داسخرم استور سے سکردو منتقل ہوئے۔ ان کی زیادہ تر پرورش نانا محمد ابراہیم کے ہاں ہوئی جو سماجی حوالے سے معتبر تو تھے ہی ساتھ ساتھ کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود تاریخ اور عصری موضوعات پر کمال دسترس رکھتے تھے۔
ان کا ایک خاصہ یہ تھا کہ وہ مجلسی آدمی تھے اور ضعیفی میں بھی گھر کے دالان میں ایک بڑی کھاٹ پر فروکش رہتے اور محلے کے چھوٹے بڑے ان کے ارد گرد آلتی پالتی مارے کہانیاں اور واقعات سنتے رہتے تھے۔
اسی گھر میں رہ کر اکبر پاکستانی کو بچپن سے ہی تاریخ سے شغف ہوا۔ پھر ان کے ماموں صوبیدار محمد دلاور خان جو کہ محمد ابراہیم کے بڑے بیٹے تھے، ان کے مربی و محسن رہے۔ محمد دلاور خان فوج میں بھی انتظامی عہدوں پر متمکن رہے اور بعد ازاں سماجی خدمت اور سیاسی تدبر میں بھی نام کمایا۔
وہ کئی بار میونسپل کمیٹی سکردو کے رکن رہے اور اپنے محلے میں تنظیم فلاح و بہبود حاجی گام کی داغ بیل ڈالنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
پھر تیسری پشت میں صوبیدار محمد دلاور خان کے بیٹے ڈاکٹر مظفر حسین انجم ان کے پھوپھی زاد ہیں، جو مستند اور قابل طبیب ہونے کے علاوہ بلند پایہ شاعر و ادیب اور قلم کار ہیں، جن کی کتابیں ریفرنس بن گئی ہیں۔
اس ماحول میں اکبر پاکستانی کی تاریخ اور جغرافیہ میں دلچسپی کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اور تو اور ان کے اپنے گھر میں ان کے بڑے بھائی قاسم بٹ بےباک صحافت کے لیے گلگت بلتستان میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔
سکول کے دنوں سے ہی اکبر حسین کی طبیعت دوسروں سے مختلف تھی اور جو بات ان کے مزاج کے مطابق نہ ہو تو وہ کسی بھی دوست یار کو آسانی سے معاف نہیں کرتے تھے۔
میں، اکبر حسین، ڈاکٹر سید صادق شاہ، ڈاکٹر غلام حیدر، انجینیئر ذوالفقار علی، کاچو سجاد حیدر خان موجودہ سفیر، میجر جنرل احسان، کرنل قاسم، بریگیڈیئر محمد شریف، ڈاکٹر اسماعیل، ایئرپورٹ مینیجر غلام نبی سمیت کئی دوست کلاس فیلو تھے اور ہائی سکول نمبر 1 سکردو میں خوب موج مستی کرتے تھے۔
کلاس میں بھی اکبر حسین سے کوئی زیادہ نہیں بڑھتا تھا ورنہ اس کی شامت آ جاتی تھی۔ محلے اور رشتہ داری میں بھی اکبر حسین کے ساتھ کوئی زیادہ ہنسی مذاق کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا تھا۔ ان کا مزاج کچھ دو آتشہ مگر دل اندر سے نرم اور ملائم تھا۔
ہم ساتھ کالج میں بھی تھے کہ ایک دن اکبر حسین کالج نہیں آئے۔ پتہ چلا کہ وہ فوج میں بھرتی ہو گئے ہیں۔ معلوم ہوا کہ گھر سے سیدھے بونجی ریکروٹمنٹ سینٹر کا رخ کیا، یس سر کہہ کر رنگروٹوں کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کیا اور یہیں پر ’اکبر پاکستانی‘ کہلائے کیونکہ دل میں وطن کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
شادی کے دن کمنٹری
کرکٹ کے بڑے شوقین تھے، سکول کالج میں بھی میڈیم فاسٹ بولنگ کرنے اور سنگل رنرز لینے میں بڑے ماہر تھے۔ کمنٹری کا بے حد شوق تھا۔
دروغ بر گردن راوی، یہ قصہ مشہور ہے کہ جس دن ان کی شادی تھی اسی دن سکردو میونسپل سٹیڈیم میں کرکٹ ٹورنامنٹ چل رہا تھا جہاں اکبر حسین نے کمنٹری کرنی تھی۔
ادھر منڈپ پر بیٹھے اکبر کو قرار نہیں آ رہا تھا، بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ آخر میں کمنٹری کا جنون غالب آ گیا اور وہ منڈپ سے سہرا اتار کر یہ جا وہ جا۔ سیدھے سٹیڈیم پہنچے، اپنے حصے کی کمنٹری کر ڈالی اور پھر واپس آ کر سہرا تھام لیا۔
فوج میں بھی ان سے نچلا نہیں بیٹھا گیا، ہر دم متحرک اور ہر مہم کے لیے پیش پیش رہے۔ رنگروٹی سے لے کر ریٹائرمنٹ تک فوج کی ریگولر کسرت ہو یا محکمانہ تربیتی کورسز کسی بھی مرحلے میں کمزوری نہیں دکھائی۔
گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بہادری سے ڈیوٹی نبھائی، جن میں اٹھمقام، نوسیری، چناری چکوٹھی، کارگل، پیون سمیت اہم سیکٹرز شامل ہیں جہاں انہوں نے دفاعی خدمات سر انجام دیں۔
ان کی پیشہ ورانہ مہارت اور صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں کارگل جنگ، آپریشن راہ راست، آپریشن راہ نجات، آپریشن ردالفساد میں شامل کیا گیا۔ انہوں نے کارگل، سوات، باڑہ اور خیبر ایجنسی میں اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 2013 میں انہیں یو این مشن پر لائیبریا ویسٹ افریقہ بھیج دیا گیا اور یوں دیار غیر میں بھی عزت اور نام کمایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2015 میں ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد انہیں بونجی سینٹر میں سول ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا اور ہسٹری سیل میں نائب ناظم کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس سیل کے تحت ایک میوزیم کو حتمی شکل دی جا رہی ہے، جہاں پر این ایل آئی بٹالین کی تاریخ کو محفوظ کیا جانا مقصود ہے۔
برطانوی عہد میں بنائی گئی گلگت ایجنسی میں قائم کی گئی مقامی لیوی کا گلگت سکاؤٹس، قراقرم سکاؤٹس، ناردرن ایریاز سکاؤٹس، این ایل آئی اور اب این ایل آئی بٹالین بننے تک کے مختلف مراحل، کامیابیوں اور انفرادی شخصیات کے کارناموں کو اجاگر کرنے کے علاوہ انہی موضوعات سے منسلک مختلف آثار بھی جمع کرکے محفوظ کیے جا رہے ہیں۔
اکبر پاکستانی کا کہنا ہے کہ جو عمارت میوزیم کے لیے منتخب کی گئی ہے وہ 1841 میں کرنل نتھو شاہ کے دور میں بنائی گئی ہے۔ یہ وہی نتھو شاہ ہیں، جنہوں نے سکھوں کی فوج کی کمانداری میں گلگت پر قبضہ جما لیا تھا۔
میوزیم میں میجر براؤن جو کہ گلگت سکاؤٹس کے کمانڈنٹ تھے، کا پیانو، ڈوگرہ دور کے بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کے استعمال کا سامان بھی موجود ہے۔ اکبر پاکستانی کے مطابق اب اس میوزیم میں کرنل حسن جو کہ جنگ آزادی گلگت بلتستان کے مرکزی ہیرو ہیں، سمیت دیگر تمام کمانڈروں اور مجاہدین سے منسوب چیزیں بھی جمع کی جا رہی ہیں جن کا جنگ آزادی گلگت بلتستان میں اہم کردار رہا ہے۔