انڈیا میں پناہ گزین روہنگیا برادری کی ’پہلی گریجویٹ‘

پناہ گزین کمیونٹی میں یہ پہلا ایسا واقعہ ہے، کیونکہ ان افراد کو شہریت کے حقوق میسر نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے میں شدید دشواری پیش آتی ہے۔

انڈیا میں پناہ گزین روہنگیا کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی تسمیدہ جوہر نے دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن کرکے ’پہلی روہنگیا گریجویٹ‘ ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔

پناہ گزین برادری میں یہ پہلا ایسا واقعہ ہے، کیوں کہ ان افراد کو شہریت کے حقوق میسر نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے میں شدید دشواری پیش آتی ہے۔

ایسے میں ایک پناہ گزین لڑکی کے گریجویشن تک پہنچنے کی کہانی اپنی نوعیت میں بہت ہی اثر انگیز ہے۔ تسمیدہ کے اہل خانہ گذشتہ 10 سالوں سے دہلی کے ایک مسلم علاقے میں رہتے ہیں۔ تسمیدہ کا خاندان بڑی کسمپرسی کی حالت میں بنگلہ دیش سے ہریانہ پہنچا اور پھر دہلی۔

ان کے مطابق: ’میں پہلی روہنگیائی پناہ گزین لڑکی ہوں جس نے انڈیا میں اپنی گریجویشن مکمل کی ہے۔ اس چیز سے مجھے بہت خوشی ہے کہ میں پہلی ہوں لیکن ساتھ ساتھ مجھے بہت افسوس بھی ہے کہ میرے ساتھ اور بھی روہنگیائی بچے ہونے چاہیے تھے۔ ان بچوں کو موقع نہیں ملا، جس کا مجھے بہت افسوس بھی ہے۔‘

انڈیا 1951 نے ریفیوجی کنوینشن پر دستخط نہیں کیے ہیں جس کے باعث بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت میں پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے اور ان کے گرد گھیرہ تنگ ہونے جیسے واقعات عام ہیں۔

2022 تک کے اعداد و شمار کے مطابق ہیومن رائٹس واچ کا کہنا تھا کہ انڈیا میں 40 ہزار سے زائد روہنگیا موجود ہیں جبکہ ان میں سے 20 ہزار اقوام متحدہ کے پناہ گزین کمیشن کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔

تسمیدہ کی تعلیم کبھی بھی ضوابط کے مطابق نہیں ہو پائی اور مسلسل پناہ کی تلاش میں قطع تعلیم کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے بنگلہ دیش اور پھر انڈیا دونوں جگہوں پر بہت ہی جوڑ توڑ کر کے سکول کی تعلیم حاصل کی۔

تسمیدہ کے مطابق ان کی پہلی خواہش ڈاکٹر بننے کی تھی، جو بہت جلد ختم ہوگئی کیوں کہ انہیں دستاویزات کی عدم دستیابی کی وجہ سے داخلہ نہیں ملا۔

پھر انہوں نے بارہویں تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد دہلی کی ایک یونیورسٹی میں وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا، جو بہت جلد ختم کردیا گیا کیوں کہ ان کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے لیے دستاویزات نہیں تھے۔ تسمیدہ کی ایک درخواست ابھی بھی وزارت داخلہ میں زیر التوا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

25  سالہ تسمیدہ بتاتی ہیں کہ 2005 میں ان کے خاندان کو بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی کرنی پڑی، جہاں انہیں دوبارہ تعلیم حاصل کرنا پڑی کیوں کہ وہاں برمی زبان میں تعلیم نہیں ہوتی تھی۔

وہ 2012 تک کسی طرح ساتوں درجے تک پہنچ گئیں۔ اسی درمیان بنگلہ دیش کی حکومت نے بھی پناہ گزین کی جانچ شروع کردی اور گھر گھر جاکر شہریوں کے دستاویزات جانچنا شروع کیے، جس میں ان کے والد کو حراست میں لے لیا گیا کیوں کہ ان کے پاس دستاویزات نہیں تھے۔ اس کے بعد انہیں دو ماہ بعد چھوڑ دیا گیا۔

تسمیدہ بتاتی ہیں کہ ’حکومت نے ہم سے کہا کہ شہریوں کے درمیان نہ رہیں بلکہ برمی پناہ گزین کے کیمپ میں رہیں۔ کیمپ میں کوئی مستقبل نہیں تھا، نہ کوئی سکول تھا۔ کوئی کام بھی نہیں تھا۔ یہ سوچ کر میرے والد نے فیصلہ کیا کہ انڈیا کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔ 2012 میں ہم انڈیا آگئے لیکن یہاں بنگلہ دیش سے بھی زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔‘

وہ مزید بتاتی ہیں: ’بچپن سے میرا خواب تھا کہ میں ایک ڈاکٹر بنوں خواتین سے متعلق بیماریوں کا علاج کروں، اپنی کمیونٹی کی عورتوں کے لیے۔ جس کے لیے میں نے دہلی کے سکولوں میں داخلہ لینے کی بہت کوشش کی، مگر شہریت کے دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے مجھے کہیں بھی داخلہ نہیں ملا۔ تو مجھے مجبوراً این آئی او ایس (فاصلاتی تعلیم) میں آرٹس میں داخلہ لینا پڑا، کیونکہ فاصلاتی نظام تعلیم میں سائنس نہیں پڑھائی جاتی۔ اس طرح میں نے دسویں بزنس اکانومکس میں مکمل کی۔‘

اس کے بعد وہ کہتی ہیں انہوں نے جامعہ ذاکر حسین سوسائٹی سے بارہویں تک کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے دہلی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس اور تاریخ میں بی اے پروگرام مکمل کیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی