بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کے سب سے بڑے کیمپ کاکس بازار میں اتوار کو لگنے والی خوفناک آگ سے درجنوں گھر تباہ ہو گئے۔
تاہم حکام کا کہنا ہے اب آگ پر قابو پا لیا گیا ہے اور اس حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
بنگلہ دیش میں پناہ گزین کمشنر میزان الرحمنٰ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’تقریباً دو ہزار شیلٹرز جل چکے ہیں جس سے میانمار سے تعلق رکھنے والے 12 ہزار بے گھر افراد چھت کے بغیر رہ رہے ہیں۔‘
کاکس بازار کے ایڈیشنل پولیس سپرنٹنڈنٹ رفیق الاسلام نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ آگ نے سرحدی ضلع میں کیمپ نمبر 11 کو لپیٹ میں لے لیا جہاں دس لاکھ سے زیادہ روہنگیا پناہ گزین مقیم ہیں۔
ان پناہ گزینوں میں سے زیادہ تر میانمار کی فوج کی جانب سے کیے گئے کریک ڈاؤن کے بعد فرار ہو کر یہاں پہنچے تھے۔
رفیق الاسلام نے بتایا: ’ہمارے پاس فی الحال اس آتشزدگی سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ نہیں ہے لیکن ہم جانی نقصان نہ ہونے کی تصدیق کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ آگ پر قابو پا لیا گیا ہے اور فائر بریگیڈ، پولیس اور پناہ گزینوں کے امدادی محکموں کے اعلیٰ عہدے دار جائے وقوعہ پر موجود تھے۔
مقامی پولیس اہلکار فاروق احمد نے کہا کہ ’آگ لگنے کی وجہ واضح نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنوب مشرقی بنگلہ دیش کے کاکس بازار میں پناہ گزین کیمپ میں اس طرح کی آتشزدگی واقعات عام ہیں۔ اسی طرح کے واقعات جنوری 2022 اور مارچ 2021 میں بھی پیش آئے تھے۔
2022 میں لگنے والی آگ نے صرف گھروں کو ہی نقصان پہنچایا تھا جب کہ 2021 میں بڑے پیمانے پر لگنے والی آتشزدگی سے کم از کم 15 پناہ گزین ہلاک اور دس ہزار سے زیادہ مکانات تباہ ہو گئے تھے۔
دی انڈپینڈنٹ کے مطابق اس سے قبل جنوری میں آتشزدگی کے دو بڑے واقعات میں ہزاروں املاک تباہ ہوگئیں جن میں یونیسیف کے چار سکولز بھی شامل تھے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیا کے لیے کمپیئنر سعد حمادی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا: ’کیمپوں میں بار بار آگ لگنے کے واقعات کچھ زیادہ ہی اتفاقیہ ہیں، خاص طور پر جب ماضی میں ایسے واقعات کی تحقیقات کے نتائج معلوم نہیں ہو سکے ہیں اور ایسے واقعات دوبارہ رونما ہوتے رہے ہیں۔‘
روہنگیا ایک نسلی اقلیت ہے جو 2017 میں فوجی آپریشن کے دوران میانمار جان بچا کر ہمسایہ ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف اس فوجی کریک ڈاؤن کو ’نسل کشی کے ارادے‘ سے شروع کی گئی کارروائی قرار دیا تھا جب کہ میانمار نے ہمیشہ اس الزام کی تردید کی ہے۔