کشمیر کی صورت حال پر ایک غیر سیاسی کالم

کشمیر کی جدوجہد کو جتنا نقصان شدت پسندوں نے پہنچایا ہے اتنا کسی اور چیز نے نہیں۔ مزید یہ کہ پروپپگنڈا بھی یہی کیا گیا ہے کہ مسلح جدوجہد ہی کشمیر میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

امریکہ میں مسلمان بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف لاس اینجلس میں 10 اگست کو  احتجاج کر رہے ہیں۔  (اے ایف پی)

سکاٹ لینڈ برطانیہ کا ایک صوبہ ہے۔ وہاں کے کچھ لوگ برطانیہ کا حصہ بن کر نہیں رہنا چاہتے اور سکاٹ لینڈ کو ایک الگ اور آزاد ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ سکاٹ لینڈ میں یہ تحریک کوئی 50 سال سے جاری ہے۔ یہ ایک پرامن جدوجہد ہے۔ اس جدوجہد میں کوئی غدار قرار نہیں پایا، کوئی گرفتاری نہیں ہوئی اور قتل تو بہت دور کی بات ہے۔

اسی جدوجہد کے نتیجے میں 2014 میں سکاٹ لینڈ میں ایک ریفرنڈم کرایا گیا۔ اس ریفرنڈم میں لوگوں سے یہ واضح سوال پوچھا گیا کہ کیا سکاٹ لینڈ کو الگ ملک ہونا چاہیے۔ پنتالیس فیصد لوگوں کے جواب ’ہاں‘ میں تھے اور55 فیصد کے ’نہ‘ میں۔ اس لیے سکاٹ لینڈ ایک الگ ملک بننے کی بجائے اب تک برطانیہ کا حصہ ہے۔

سکاٹ لینڈ کے لوگوں کی آپس میں بھی کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔پنتالیس فیصد نے 55 فیصد لوگوں کی اکثریت اور جیت کا احترام کیا۔ کسی نے دھاندلی کا الزام بھی نہیں لگایا کیونکہ دھاندلی ہوئی ہی نہیں تھی۔ وہاں مذہب کی بجائے سیکولر ایمانداری کا راج ہے۔ پرامن جدوجہد جمہوریت اور لبرل ازم کا ایک خوب صورت تحفہ ہے۔ یہی جدوجہد اب بھی جاری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب اس صورت حال کا موازنہ کشمیر کی بدقسمت جدوجہد اور انڈیا، خاص طور پر مودی کے ہندوستان، کے ظالمانہ رویے کے ساتھ کریں۔ کانگریس اور جواہر لعل نہرو کا انڈیا مودی کے ہندوستان سے بہت مختلف تھا۔ بنیادی فرق حکومت کرنے کے لیے مذہبی سوچ اور سیکولر سوچ میں ہے۔ آج سے 70 سال قبل ایک سیکولر انڈین حکومت نے کشمیریوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا اور انہیں آئینی ضمانت دی گئی تھی کہ ان کی مرضی کے بغیر ان کی ریاست کا سٹیٹس تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ انڈین ریاست نے اس معاہدے کی سات دہائیوں تک پابندی کی، تاوقت یہ کہ انڈین عوام نے اپنا ملک ایک مذہبی جنونی، انتہا پسند دہشت گردی کے الزامات سے داغ دار اور شدید رجعت پسند پارٹی، بی جے پی، کے حوالے نہیں کر دیا۔

یہ جمہوریت کی خامیوں میں سے ایک ہے کہ لوگوں کی اکثریت کو سبز باغ دکھا کر پاپولزم کا شکار کیا جا سکتا ہے۔ جب ایسا ہو جاتا ہے تو پھر ٹرمپ اور مودی جیسے رجعت پسند، انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کے دشمن منتخب ہو کر آ جاتے ہیں۔ یہ سارے کے سارے لوگ مذہبی ہوتے ہیں۔ یہ ایک ہی وقت میں ’انٹی ابارشن‘ لیکن ’پرو گن‘ ہوتے ہیں۔ یعنی بے ہنگم انسانی پیدائش اور قتل و غارت دونوں ہی کے حامی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ عوامی رائے کا احترام نہیں کرتے بلکہ انہیں اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ مذہبی ہوتے ہیں لیکن مذہبی آزادی کے قائل نہیں ہوتے۔ یہ لوگ نہ صرف ہر کسی کو اپنے مذہب پر لانا چاہتے ہیں بلکہ اپنے ہم مذہبوں کو مذہب تبدیل کرنے پر سزا بھی دینا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ امن کی بجائے جنگ کو مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔

مودی اور اس کی رجعت پسند مذہبی جنونی پارٹی بی جے پی کو اتنی بھی شرم نہیں ہے کہ ریاست کشمیر کے اسی لاکھوں لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے سے پہلے ایک دفعہ ان سے پوچھ ہی لیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ انڈیا میں بھی جو انسانیت اور جمہوریت پرست لوگ ہیں وہ مودی گورنمنٹ کے اس غیر انسانی اور یک طرفہ فیصلے پر نہایت برہم ہیں اور سراپا احتجاج ہیں۔ انڈیا کی ساری سیکولر سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہیں۔

آج کی اس صورت حال میں پاکسان کی خارجہ پالیسی کا بھی بہت ہاتھ ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی ان ہاتھوں میں ہے جن کی یہ ذمہ داری ہے نہ وہ اس کے ماہر ہو سکتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہم کشمیریوں کے نادان دوست ثابت ہو رہے ہیں۔ ہم نے انہیں گھونسلے سے نیچے گرا دیا ہے اور اب ان کی مدد کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ ہم نے جہادی پال کر دنیا کے سامنے کشمیریوں کی جدوجہد کو گدلا کر دیا ہے۔ اس لیے بھارت سرکار ساری دنیا کو کشمیر میں دہشت گرد اور دہشت گردی دکھانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد دہشت گردی کے نیچے چھپ گئی ہے۔ بھارت نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا ہے۔

ہماری خارجہ پالیسی کی دوسری خامی یہ ہے کہ ہم نے انڈیا جیسے اہم ہمسائے کے ساتھ دوستی کی بجائے دشمنی پال رکھی ہے۔ ہم 22  کروڑ لوگ ہیں اور وہ ہم سے بھی پانچ گنا بڑا ملک ہے۔ ہم 3300 کلومیٹر طویل سرحد کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ بارڈر کے دونوں جانب لاکھوں خاندان بٹے ہوئے ہیں۔ آدھے بہن بھائی ادھر اور آدھے ادھر ہیں۔ یہ ساری باتیں تقاضا کرتی ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کے تعلقات آپس میں بہت اچھے ہوں۔ اگر ہمارے تعلقات اچھے ہوتے، ہماری معیشت اور کاروبار کا انحصار ایک دوسرے پر ہوتا تو بھارتی سرکار کے لیے کشمیر میں یک طرفہ فیصلہ لینا اتنا آسان نہ ہوتا جتنا کہ اب ہے۔ لیکن اب تو ہمارے درمیان کچھ سانجھا ہے ہی نہیں۔ کاروبار کا حجم اتنا تھوڑا ہے کہ انڈیا کو اس بات کی کوئی فکر ہی نہیں۔

چکنا چور خواب: سری نگر میں اس سال جنوری میں ایک دوکان پر حملے کے بعد مقامی لوگ نقصان کا اندازہ لگا رہے ہیں۔ (اے ایف پی)

ہمیں بتایا گیا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے ہمارے تعلقات خراب ہیں۔ اصل میں کشمیر کا مسئلہ چونکہ ابھی حل طلب تھا تو اس لیے بھی ہمارے تعلقات انڈیا کے ساتھ بہتر ہونے اور بھی ضروری تھے۔ ہمیں چاہیے تھا کہ ہم انڈیا کے ساتھ تعلقات بہت اچھے بناتے تاکہ ہمیں کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں آسانی ہوتی۔ لیکن ہماری خارجہ پالیسی اس کے الٹ رہی۔ یہی وجہ ہے کہ آج انڈیا کے جی میں جو آتا ہے کرتا ہے اور ہم بالکل بے بس ہیں۔ ہمارے وزیراعظم صاحب ملائشیا اور ترکی کے حکمرانوں کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ عوام کو کچھ تو بتا سکیں کہ ہم پریشان ہیں اور کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ ترکی اور ملائیشیا کشمیر کی وجہ سے انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات تو خراب نہیں کر لیں گے۔ اور ہم نے دیکھا ہے کہ انہوں نے بھی باقی دنیا کی طرح اس معاملے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔

کشمیر کی جدوجہد کو جتنا نقصان جہادیوں نے پہنچایا ہے اتنا کسی اور چیز نے نہیں۔ مزید یہ کہ پروپپگنڈا بھی یہی کیا گیا ہے کہ جہاد ہی کشمیر میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس نازک موقع پر بھی لوگ سمجھنے کو تیار نہیں ہیں اور مسلح جدوجہد کی غلطی کو جاری رکھنے پر بضد ہیں۔

اب بھی وقت ہے کہ ہم کشمیریوں کے نادان دوست بننا بند کریں۔ ہم کشمیریوں کی بھرپور سفارتی اور اخلاقی مدد کریں لیکن انہیں شدت پسندوں سے بچائیں۔ یہی کشمیریوں اور ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔ مودی کو اگر کوئی چیز مجبور کر سکتی ہے تو وہ اس کی اپنی اپوزیشن یا انڈیا کی سول سوسائٹی ہے اور وہ ایک بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

ایک سبق افغانستان کی حالت زار سے۔ افغانستان کو اس حالت میں پہنچانے والے غیر ملکی شدت پسند اور غیر ملکی اسلحہ ہی تھا۔ ایک عام افغان مجاہد جو افغانستان کو سوویت یونین سے آزاد کرانے کی خاطر لڑ رہا تھا لکھتا ہے کہ افغان تو جنگ جلد از جلد ختم کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ اپنے ملک کی آزادی کے لیے لڑ رہے تھے لیکن باہر سے آئے ہوئے شدت پسند تو ثواب اور شہادت کے لیے لڑ رہے تھے اس لیے وہ جنگ ختم ہونے کے حق میں ہی نہیں تھے۔ پس ثابت ہوا کہ کشمیریوں کی جدوجہد کو گدلا نہ کریں۔ کشمیر کو کھنڈرات بننے سے بچائیں۔ صحیح فیصلہ صرف وہ ہو گا جو کشمیری خود کریں گے۔ اس لیے کشمیریوں کو اپنا فیصلہ کرنے دیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ