ڈاکٹر رتھ فاؤ: اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جائیں

ڈاکٹر روتھ فاؤ کے حوالے سے یہ بات مشہور ہے کہ وہ عین شباب میں دنیا کی چکا چوند زندگی سے کنارہ کش ہوئیں اور خدمت خلق کو اپنا مقصد بنایا۔

دو دسمبر 2010 کی اس تصویر میں کوڑھ اور اندھے پن سے لڑنے والی ایک پاکستانی خیراتی تنظیم کی سربراہ روتھ فاؤ کا ضلع بدین میں بھٹہ پر کام کرنے والے اینٹوں کے مزدور خوش آمدید کہہ رہے ہیں (آصف حسن/ اے ایف پی)

چترال میں پاکستان افغانستان سرحد کے قریب ایک بچی کو جذام کا موذی مرض لاحق ہو گیا۔ گھر والوں نے گھبرا کر اسے ایک پہاڑی غار میں ڈالا اور باہر اونچی دیوار کھڑی کر دی تاکہ وہ باہر نہ نکل سکے۔ بچی کو وہیں کھانا پانی پہنچا دیا جاتا تھا۔  

ایک جرمن خاتون کو کسی طرح اس واقعے کا علم ہوا۔ وہ چترال پہنچیں اور غار کے آگے ایستادہ دیوار پھلانگ کر اندر گئیں تو چیتھڑوں میں ملبوس ایک کوڑھ زدہ ایک جسم اسے دیکھ کر ہرنی کی بدک کر غار کے ایک کونے میں دبک گیا۔

جرمن خاتون نے جیب سے ایک ٹافی نکال کر اس کی طرف بڑھائی۔ بچی نے ڈرتے ڈرتے ٹافی تھامی اور ریپر کے ساتھ نگل کر پوچھا، ’یہ دوائی ہے۔‘

یہ واقعہ ڈاکٹر روتھ فاؤ نے اپنی کتاب To Light a Candle and Keep it Burning میں بیان کیا ہے۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ کے حوالے سے یہ بات مشہور ہے کہ وہ عین شباب میں دنیا کی چکا چوند زندگی سے کنارہ کش ہوئیں اور خدمت خلق کو اپنا مقصد بنایا۔ یورپ کی مسحور کن بود و باش سے یک لخت دامن چھڑانا کوئی آسان کام کہاں تھا، ہاں ایک صوفی کا من ہی ایسا کر سکتا تھا اور روتھ فاؤ سے بڑا صوفی کون۔

ان کی کتاب میں ان کے ایک پیراگراف کا ٹکڑا پڑھ کر اندازہ ہوا کہ دل میں جب خاص جوار بھاٹا اٹھتا ہے تو آرائش صحن چمن لمحہ بھر میں خس و خاشاک لگنے لگتی ہے اور دنیا بدل جاتی ہے۔

وہ لکھتی ہیں کہ میری میڈیکل کی تعلیم مکمل ہو گئی تھی اور ڈرائیونگ لائسنس بھی مل گیا تھا۔ ایک دن دوستوں کی محفل میں اس بات پر بحث چلی کہ کون سی گاڑی خریدی جائے، ووکس ویگن یا اوپل اور اس کا رنگ کیا ہو اورنج یا بھورا فاختئی؟

اچانک میرے ذہن میں ایک خیال کوندا، کیا یہی زندگی ہے کہ پیسے بچاؤ، گاڑیاں خریدو اور پھر مزید پیسے بچاؤ اور گاڑیاں تبدیل کرو۔ میں اس طرز کی کشمکش حیات سے نکلنا چاہتی تھی جلد یا بدیر اور پھر ایسا ہی ہوا۔

وہ لکھتی ہیں کہ بڑے صبر آزما انتظار کے بعد میں ایک الگ راستے پر گامزن ہو گئی۔ صارفی زندگی سے جڑی زندگی سے دور جو مجھے بہت بوجھ لگتی تھی۔ مادیت پرستی کے بے معنی شب و روز سے بھاگ کر دور پاکستان جانے کے سفر پر تھی۔ وہ شروع میں انڈیا جانا چاہتی تھیں مگر سفری دستاویزات کی پیچیدگیوں اور اجازت نامے کے طویل انتظار نے ان کا ذہن بدل ڈالا۔

یوں وہ 1963 میں فرانس سے روم اور پھر تہران سے ہوتی ہوئی پرواز کے ذریعے کراچی پہنچیں۔ یہاں ایک مشنری ادارے کی جانب سے چلائے جانے والی ایک ڈسپنسری کے لیے لیڈی ڈاکٹر کی ضرورت تھی۔

روتھ فاؤ نے بچپن میں پڑھی گئی ایک کتاب کا حوالہ دیا ہے اور لکھا ہے کہ انہیں یہ بھی یاد نہیں کہ اس کا مصنف کون تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ 20 سال کی عمر تک بھی اسے متذکرہ کتاب کے مندرجات ناقابل فہم رہے حتیٰ کہ والدین بھی اس کتاب کو پڑھنے سے منع کرتے تھے۔ وہ لکھتی ہیں کہ تاہم اس کتاب کے آخری باب نے ان کے ذہن پر گہرا اثر ڈالا۔

روتھ فاؤ کے مطابق اس کتاب کے آخری باب میں ایک قید خانے کا ذکر تھا جس کے ایک وارڈن کا دل قیدیوں کی مفلوک الحالی اور بے بسی دیکھ کر پژمردہ ہو جاتا تھا اور بے قراری حد سے بڑھ جاتی تھی۔

ایک دن وارڈن چپ چاپ غائب ہو گیا اور کئی ماہ بعد جب اسے نہایت خستہ حالت میں ہڈیوں کے ڈھانچے کی شکل میں کسی نےب قید خانے پہنچایا تو اس کا دوست نیا وارڈن اس کو دیکھ کر ششدر رہ گیا۔

روتھ فاؤ لکھتی ہیں کہ اس خستہ تن شخص کے آخری الفاظ نے اس کے دل میں تلاطم پیدا کیا۔ الفاظ کچھ یوں تھے It is much more difficult to stand by and look on than being there and suffering together یعنی مختصراً یہ کہ تماشا دیکھنا زیادہ تکلیف دہ ہے بجائے اس کے کہ دکھ اور تکلیف ساتھ مل کر جھیلا جائے۔

مہاتما گوتم بدھ نے بھی نروان پانے کے بعد یہی کہا تھا۔

روتھ فاؤ کی نروان پانے کی جگہ کراچی کا میکلوڈ روڈ کا وہ خاص علاقہ تھا جہاں جذام سے گلے سڑے زندہ انسان سسک رہے تھے جن پر نظر ڈالنے والا کوئی نہیں تھا۔

اس جھونپڑ پٹی کے رہائشی کوڑھ کے مریضوں کی حالت زار کا پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ روتھ فاؤ لکھتی ہیں کہ یہاں مفلسی سے بھی نچلی سطح پر گرے پڑے مریض جن کے ہاتھ پاؤں جذام سے جھڑ چکے تھے پٹ سن کے ٹاٹ، بانس کی ڈنڈیوں اور گتے کے ڈبوں سے بنے جھونپڑوں میں ٹھونسے ہوئے تھے۔ وہ چاروں طرف سے گندگی، غلاظت اور سیوریج کے پانی میں نالی کے کیڑوں کی طرح پڑے ہوئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پھر اس کے بعد ممتا کی طویل کہانی شروع ہوتی ہے۔ ایک 30 سالہ خوبرو خاتون جس کی ابھی دلہن بننے کی عمر ہے کس طرح ان کوڑھ زدہ مریضوں کو ممتا بھری محبت میں سینے سے لگاتی ہے، ان کے پیپ بھرے زخموں پر مرہم کے پھاہے رکھ دیتی ہے، کس طرح راندۂ درگاہ، پھینکے گئے مریضوں کو بانہوں میں بھر کر کھانا کھلاتی ہے، شاید کوئی ماں بھی اپنے بچوں کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی۔

پھر اس کے بعد ایک طویل جدوجہد کی کہانی ہے جس کے ہم سب شاہد ہیں کہ کس طرح 1960 میں کراچی کی جھونپڑیوں سے آغاز کیا گیا پروگرام آج کس مقام پر ہے۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ نے صرف شہری زندگی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ پہاڑ، صحرا، میدان کوئی ایسا علاقہ نہیں رہا جہاں ان کے قدم نا پڑے ہوں۔ وہ سکردو، استور اور گلگت کے دور افتادہ گاؤں گاؤں گئیں اور مریضوں کی داد رسی کی۔ یاغستان تک گئیں جہاں انگریزوں کو گلگت ایجنسی قائم کرنے کے بعد قدم رکھنے کی جرات نہیں ہوئی تھی۔ بلوچستان، افغانستان شورش زدہ علاقوں سے لے کر سندھ کے ساحلی علاقوں تک وہ آبلہ پا بے تابی کے ساتھ ہر کوڑھ کے مریض کے پاس گئی، ان کے کندھے تھپتھپائے اور ڈوبتی امیدوں کو زندگی کی نئے رمق سے آشنا کیا۔

اس کتاب میں دو واقعات ایسے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ روتھ فاؤ کا مقام کیا تھا۔ ایک تو ہم اس تحریر کے شروع میں بیان کر چکے ہیں، دوسرا گلگت بلتستان کے بارے میں ہے۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ نے گلگت بلتستان کے حوالے سے جہاں اس علاقے کی لینڈ سکیپ کی خوبصورتی بیان کی ہے اور سردیوں کے موسم میں اسکردو میں دریائے سندھ کے پانی کا فیروزی رنگ ہونے کا خوبصورت پیرائے میں اظہار کیا ہے وہیں پر گلگت میں MALC سنٹر میں ظہور پذیر ایک جاں لیوا حادثے کا ذکر بھی کیا ہے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب گلگت میں مذہبی انتہا پسندی کی لعنت فروغ پا رہی تھی اور انسانوں کی جان بے مول تھی۔ ایک حساس دل انسان جس نے بجھتی ہوئی زندگیوں کو حوصلہ بخشا تھا، وہ یہ گھناؤنا کھیل دیکھ کر لرز گئی۔

انہوں نے اپنی کتاب میں 1995 میں گلگت میں ظہور پذیر ایک دردناک واقعے کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح مذہبی منافرت کی وجہ سے لیپروسی سنٹر پر بھی حملہ ہوا اور اس کی آنکھوں کے سامنے تین افراد مار دیے گئے حالانکہ روتھ فاؤ نے اپنی چادر حملہ آوروں کے سامنے ڈال دی تھی کہ ایک ماں کی خاطر ان کی جان بخش دیں۔ مگر جنت کے متمنی خلق خدا کو مار کر دنیا کو جہنم بنا رہے تھے کب روتھ فاؤ کی سنتے۔

زندگی اور موت سفر زندگی کے دو رخ ہیں جہاں ثبات نہیں ہاں مگر شاید انداز سفر مختلف ہو۔ کوڑھ زدہ زندگیوں کو گلے لگاتے لگاتے ڈاکٹر روتھ فاؤ نے بظاہر اس جہان رنگ و بو کو خیر باد کہا۔ غالباً نئے سفر میں کچھ اور ذمہ داریوں کی صلیب کاندھے پر اٹھانا مقصود ہو۔ لہٰذا دام اجل کو لبیک کہا تاہم ان کی آخری خواہش بڑی حیران کن تھی۔

انہوں نے وصیت کی تھی کہ انہیں دلہن کے سرخ لباس میں دفنایا جائے، زندگی بھر تو سفید لباس کو مقدم جانا مگر اس دنیا سے ان کی رخصتی دلہن کے سرخ لباس میں ہوئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ