حکومت کی طے کردہ کم از کم اجرت دیتا کون ہے؟ مزدور کا سوال

رنگ و روغن کا کام کرنے والے محمد ناصر کہتے ہیں کہ مزدوری اور پورا معاوضہ نہ ملنے کے باعث جرائم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور حکومت کی جانب سے مزدوروں کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جا رہا۔

کراچی کے صدر ٹاؤن میں بلوچ آئس کریم کے سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر گاہکوں کا انتظار کرنے والے مزدوروں میں محمد ناصر بھی شامل ہیں۔

ناصر عمارتوں کو پینٹ کرنے کا کام کرتے ہیں۔ وہ دیگر مزدوروں کے ساتھ پینٹ کے برش، پینٹ کھرچنے کے اوزار اور دیگر اشیا لیے صبح سے شام تک گاہکوں کا انتظار کرتے ہیں۔  

اگر کوئی فرد اپنے گھر، دکان یا دیگر عمارتوں کو پینٹ کروانے کے لیے مزدور کی تلاش میں وہاں آتا ہے، تو ادھر بیٹھے ایک درجن کے قریب مزدوروں کی امید بندھ جاتی ہے کہ اب انہیں دہاڑی ملے گی، مگر ان میں کسی ایک کو کام ملتا ہے اور باقی مزدور مایوس ہو کر دوبارہ سے انتظار کرنے لگ جاتے ہیں۔  

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے محمد ناصر نے بتایا: ’کبھی ہفتے میں دو تو کبھی تین دن مزدوری ملتی ہے۔ میری دہاڑی 1500 روپے ہے۔ پورے مہینے میں 15000 سے 20000 روپے کماتا ہوں۔ بڑی مشکل سے گزر بسر ہو رہی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’حکومت نے مزدور کی کم از کم اجرت 45 ہزار رکھی ہے، مگر آج کے دور میں اتنی اجرت کون دیتا ہے؟ اگر اتنی اجرت مل بھی جائے تو اس دور میں اتنی رقم سے بھی گزارا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ مزدوری نہ ملنے اور پورا معاوضہ نہ ملنے کے باعث جرائم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے مزدوروں کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جا رہا۔‘

پاکستان میں 2021 کے لیبر فورس سروے کے مطابق سات کروڑ سے زائد افراد بطور ’لیبر فورس‘ موجود ہیں، جن میں سے چھ کروڑ 70 لاکھ کسی نجی ادارے کے ملازم ہیں جبکہ باقی 30 لاکھ افراد بغیر مستقل ملازمت کے کام کرتے ہیں۔

بغیر ملازمت کام کرنے والے افراد کی لیبر فورس میں شرح خیبر پختونخوا میں 8.8 فیصد، پنجاب میں 6.8 فیصد، بلوچستان میں  4.3 فیصد اور سندھ میں 3.9 فیصد ہے۔

بلوچستان میں مزدور کی مقررہ اجرت پر مکمل عمل نہیں ہو رہا: مزدور تنظیمیں 

ملک بھر کی طرح بلوچستان میں بھی مزدوروں کے حوالے سے قوانین یا تو بہت پرانے ہیں یا ان پرعمل درآمد کم ہوتا ہے، آج بھی صوبے میں ایک مزدور کی کم سے کم تنخواہ 25 ہزارمقرر کی گئی ہے، جو مہنگائی کے تناسب سے انتہائی کم ہے۔ 

کوئٹہ کے باچا خان چوک پردوسرے مزدورں کی طرح کام کے منتظر انور شاہ ایک مستری ہیں، جو گھروں کی تعمیر کا کام کرتے ہیں۔

آج کل وہ کام نہ ملنے سے پریشان ہیں۔ انور شاہ نے بتایا: ’اجرت مزدور کے نام سے جاری ہوتی ہے، لیکن ملتی دوسروں کو ہے، ہمارے نام پر دفتروں میں یا باہر، ہر جگہ حساب کتاب چل رہا ہے، لیکن ہم ابھی بھی اسی طرح ہیں، دیہاڑی بھی پہلے کے مقابلے میں کم ہوگئی ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’پہلے اس مزدوری میں مستری کو دو ہزار سے 22 سو روپے ملتے تھے، اب وہ کم ہو کر ایک ہزار سے آٹھ سو روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ اوپر سے کام بھی نہیں ہے کیوں کہ لوگوں نے مہنگائی کی وجہ سے کام کروانا بند کردیا ہے۔‘

انور شاہ کہتے ہیں کہ انہوں نے چار مہینوں کے دوران صرف 10 ہزار کی مزدوری کی ہے، وہ پوچھتے ہیں کہ اس رقم سے وہ اخراجات کیسے پورے کر سکتے ہیں؟

’ہم بس اللہ کے آسرے پر اس چوک میں بیٹھے رہتے ہیں، مہنگائی کے باعث مزدور سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ سمینٹ کا کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے، سریے کی قیمت بڑھنے سے تعمیراتی کام بند ہیں، کوئی ایک دن کی مزدوری مل جاتی ہے، جس سے گزارا چل رہا ہے۔‘

مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم پاکستان ورکرز فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری پیر محمد کاکڑ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں اس وقت کم سے کم اجرت 25 ہزارروپے مقرر ہے، اس پر بھی نجی شعبے میں عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ 

پیر محمد کاکڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بلوچستان میں مزدوروں کی تعداد کے حوالے سے کوئی اعدادوشمار نہیں ہیں کیوں کہ یہ سب محکمہ لیبر میں رجسٹر نہیں ہیں۔ ’ہمارا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ تمام مزدوروں کو رجسٹر کیا جائے تاکہ ان کے مسائل اور قوانین کے ساتھ ان کے حقوق کا تحفظ بھی ہو سکے۔‘

انہوں نے بتایا: ’اگر ایک اندازہ لگایا جائے تو بلوچستان میں مزدوروں کی تعداد 10 سے 15 لاکھ ہوسکتی ہے، تاہم زراعت کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد اس سے بھی بڑھ سکتی ہے، ہم نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ تمام مزدوروں کو سوشل سکیورٹی، ای او بی آئی، ورکرز ویلفیئر فنڈ میں رجسٹر کیا جائے۔‘

پیر محمد کاکڑ کہتے ہیں کہ انہوں نے حکومتِ بلوچستان سے مزدور کی بنیادی اجرت بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ 

’ماہانہ اجرت کا علم نہیں، 15 ہزار ملتے ہیں‘

محمد عیسیٰ کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ سے ہے اور وہ پشاور کے مقامی ہوٹل میں بطور باورچی کام کرتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کو مزدور کی سرکاری ماہانہ اجرت کا کوئی علم نہیں لیکن انہیں ماہانہ 15 ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے۔ 

عیسی خان نے بتایا: ’اس مہنگائی کے دور میں 15 ہزار میں گزارا مشکل ہے کیونکہ گھی، چینی اور آٹے کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ آٹے کا ایک تھیلا آج کل تین ہزار سے اوپر ہے جبکہ چینی کا ایک تھیلہ پانچ ہزار تک ہے اور اسی طرح گھی کی قیمت بھی بہت بڑھ گئی ہے۔‘

ماہانہ خرچے کے حوالے سے عیسیٰ خان نے بتایا کہ ایک دوسرے سے قرض لے کر ماہانہ خرچہ پورا کیا جاتا ہے۔ 

خیبر پختونخوا میں ان سکلڈ لیبر کی ماہانہ اجرت 26 ہزار روپے ہے جو اگست 2022 میں مقرر کی گئی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان