کیا برٹش بلوچستان کا مطالبہ پی ایم اے پی کی چال ہے؟

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے بلوچستان کے پشتون علاقوں پر مبنی ایک نیا صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس مطالبے میں کتنا وزن ہے اور اس کے مخالفین کیا کہتے ہیں؟

محمود خان اچکزئی انگریزوں کے زمانے کے بلوچستان کی بحالی چاہتے ہیں (محمود خان اچکزئی فیس بک)

بلوچستان میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی متواتر بلوچ پشتون برابری کے تحت حقوق اور علیحدہ صوبے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں، لیکن اب انہوں نے ’برٹش بلوچستان‘ صوبے کے قیام کے لیے جدوجہد کا عندیہ دیا ہے۔

ان کی تجویز کے مطابق یہ صوبہ برطانیہ کے دور حکومت میں پشتون اکثریتی علاقوں (لورالائی، پشین، مسلم باغ، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبد اللہ، ژوب، چمن) کے علاوہ کوئٹہ اور بلوچ علاقوں ضلع چاغی اور بگٹی اورمری ایجنسی (کوہلو) کے علاقوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔

یہ مطالبہ کیا ہے اور کیوں کیا جا رہا ہے؟

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر قہارودان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہماری جماعت کا شروع دن سے ہی یہی مطالبہ رہا ہے، جب 1887 میں برٹش بلوچستان کا قیام عمل میں لایا گیا اور اسے چیف کمشنر صوبے کی حیثیت حاصل تھی، ہم اس کی بحالی چاہتے ہیں۔

’مشہور انگریزی مصنف اولف کیرو اپنی مجلسوں میں اسے ’برٹش افغانستان‘ کہتا تھا اور یہ ہونا بھی چاہیے تھا کہ برطانیہ جن علاقوں کو فتح کرتا تھا، ان کو نام دیتا تھا، جیسے برٹش آئرلینڈ وغیرہ۔

’یہ لکھتے ہیں کہ جو برٹش بلوچستان تھا خالصتاً پشتون علاقوں پر مشتمل علاقہ تھا، اس کو یہ نام اس لیے دیا گیا کہ انگریز نے جب افغانستان کو فتح کرنا چاہا تو اسے افغانوں کی طرف سے سخت مزاحمت اور اسے چیلنج کرنے والا ملا، اس سے قبل کسی نے انگریزوں کو چیلنج نہیں کیا تھا، اس لیے ان کو سبق سکھانا تھا۔‘

قہارودان کہتے ہیں: ’مختلف ادوار میں مصنفین یہ لکھتے رہے کہ برٹش بلوچستان کا نام تاریخ کو مسخ کرنے کے لیے دیا گیا، اصل نام برٹش افغانستان تھا، اس کو جب چیف کمشنر صوبے کی حیثیت حاصل ہوئی تو جو موجودہ صوبہ پشتونخوا، پنجاب اور سندھ تھا، یہ براہ راست بمبئی پریزیڈنسی کے ماتحت تھے۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ برطانوی بلوچستان جن علاقوں پر مشتمل تھا، ان کو مختلف معاہدات کے تحت افغانستان سے الگ کیا گیا، ان میں کوئی بلوچ اور براہوی آباد نہیں تھا، کچھ ایسے علاقے جن میں کچھی، نصیر آباد، بگٹی ایجنسی اور چاغی شامل تھے، ان علاقوں میں بلوچ موجود تھے۔

قہارودان کے مطابق: ’افغانستان کے بادشاہ امیر یعقوب کے ساتھ گندمک معاہدہ 1879 میں ہوا تھا، جس کے تحت افغانستان کے کچھ علاقے الگ کیے گئےتھے، اس میں پشین، دکی، شاہرگ اور پنجپائی شامل ہیں، جن میں موجودہ ضلع پشین، قلعہ عبداللہ، چمن، سبی، زیارت، دکی، ہرنائی ہیں۔

’اس کے علاوہ جو ریاستیں تھیں کچھ قبائل کے ہاتھ میں، ژوب، کوہلو، مری بگٹی کے علاقے ان کو 1884 سے 1894 تک بعد میں برٹش بلوچستان میں شامل کیا گیا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اسی طرح قلات، مکران خاران اور لسبیلہ بلوچ علاقوں پر مشتمل علاقہ تھا، یہ حیثیت 1970 تک موجود تھی اور پشتون علاقوں کی انتظامی حیثیت بھی الگ تھی۔

1970 تک بلوچ اور پشتون ایک انتظامیہ کے ماتحت نہیں تھے، جو چار ریاستیں تھیں، 12 اپریل، 1952 کو بلوچستان سٹیٹ پارٹی ان کو یکجا کر کے 1958 میں ون یونٹ قلات ڈویژن بنا گیا۔

’یعنی 1887 سے لے کر 1952 تک اور بعد میں جب 1955 میں ون یونٹ بنا، اس وقت تک ہم الگ تھے۔

’ون یونٹ میں بھی بلوچستان ریاستی اتحاد بنایا گیا، جو چیف کمشنر صوبہ تھا، وہ کوئٹہ ڈویژن بنا، قائداعظم محمد علی جناح کے جو مشہور 14 نکات ہیں ان میں بھی دسواں برٹش بلوچستان کا تھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’1956 میں جب نیشنل عوامی پارٹی بنی، اس میں ہمارے قائدین شامل تھے، ملک کی جتنی قوم پرست جماعتیں تھیں وہ سب اس کا حصہ تھیں، جن میں خان عبدالغفار خان اور عبدالصمد اچکزئی کی جماعت بھی تھی، ان جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک دستور بنایا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ ون یونٹ کو ختم کیا جائے اور تمام صوبوں کی قومی، ثقافتی اور لسانی بنیاد پر ازسرنو تشکیل کی جائے، ہمارے قائدین کا مطالبہ تھا کہ چیف کمشنر صوبہ ، خیرپختوںخوا، میانوالی اور اٹک پر مشتمل صوبہ بنایا جائے۔‘

قہارودان کہتے ہیں کہ جب 1970 میں ون یونٹ کا خاتمہ ہوا تو ایک غلطی ہوئی، جس کی بنیاد خان عبدالصمد خان نے نیشنل عوامی پارٹی بنائی۔ وہ واحد شخص تھے، جن کو دس سال قید بامشقت ہوئی۔ وہ 1958 میں جیل گئے اور 1968 میں رہا ہوئے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’جب وہ جیل میں تھے تو ان کا مطالبہ تھا کہ کم از کم صوبوں کی جو تشکیل ہے اور جو چیف کمشنر صوبہ ہے یہ افغانستان سے علیحدہ ہوا ہے، اسے صوبہ سرحد (موجودہ خیرپختوںخوا) کے ساتھ شامل کیا جائے اور میانوالی اٹک کو ملا کر پشتوںخوا صوبہ بنایا جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان بننے کے بعد پشتوںخوا کے مطالبہ یہ تھا کہ جو پشتون علاقوں پر مشتمل علاقے ہیں، ان کا صوبہ بنایا جائے۔ اب بھی ہمارا مطالبہ وہی ہے۔

’جب تک ہم اپنے صوبے میں ضم نہیں ہو جاتے اسے بلوچ پشتون صوبہ کے نام سے پکارا جائے۔ پہلی مردم شماری بلوچستان میں جو 1940 میں ہوئی پہلی مردم شماری اس میں بلوچوں کی آبادی دو ہزار زیادہ تھی۔

’اس وقت بھی انگریز مورخین لکھتے ہیں کہ پشتون علاقوں میں درست مردم شماری ہوئی جسے تحصیل اور پٹواریوں نے انجام دیا، بلوچ علاقوں میں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا اور ایک سردار نے زیادہ تعداد لکھوائی۔‘

’مسئلہ ایسے حل نہیں ہو سکتا‘

تجزیہ کار رفیع اللہ کاکڑ محمود خان اچکزئی کے اس نئے مطالبے پر کہتے ہیں کہ وہ اس طریقے سے اپنے کارکنوں کو دوبارہ متحرک کرنا چاہتے ہیں۔

رفیع اللہ کاکڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ برٹش بلوچستان یا پشتون علاقوں پر مشتمل پشتون اکثریتی صوبے کا مطالبہ محمود خان اچکزئی شروع سے کرتے رہے ہیں، ان کے والد عبدالصمد خان بھی یہ مطالبہ تھا، مجھے نہیں لگتا کہ کوئی تبدیلی آئی ہے، یہ شروع سے ان کا مطالبہ تھا، البتہ یہ ضرور ہے کہ اس مطالبے کو نئے سرے سے زیادہ شدت کے ساتھ دہرایا جا رہا ہے، میرے خیال میں یہ قابل عمل تو نہیں ہے، یہ مسئلہ ایسے حل نہیں ہو سکتا۔‘

ان کا کہنا تھا: ’پاکستان کے وفاقی نظام میں جو نئے صوبوں کے قیام  کے حوالے سے جو بحث ہے، یہ اس کے ساتھ منسلک ہے، جب تک وہ بحث کامیاب نہیں ہوتی یہ معاملہ بھی آگے نہیں جا سکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’نئے صوبے کے قیام کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی سے ایک قرارداد کی منظوری لازمی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ محمود خان اچکزئی اس وقت ان کی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی بھی نہیں ہے، اس لیے یہ قابل عمل نہیں ہے۔‘

رفیع اللہ کہتے ہیں کہ دوسرا مجھے اس کے پیچھے سیاسی محرک لگتا ہے کہ یہ مطالبہ اتنے شدومد کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے، چونکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی خود دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے، ان کا واحد رکن اسمبلی بھی دوسرے دھڑے کے ساتھ مل چکا ہے، اندرونی طور پر ان کو بہت زیادہ نقصان پہنچ چکا ہے، اس مطالبے کا شاید یہ مقصد ہے کہ جو جماعت میں اندرونی خلفشار ہے اس کو کم کیا جائے اور ووٹرز کو دوبارہ اس نام پر متحرک کیا جائے، تاکہ جو اندرونی معاملات ہیں ان سے توجہ ہٹائی جائے، بنیادی طور پر یہ کوشش ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’مجھے نہیں لگتا کہ یہ کوشش زیادہ کامیاب ہو گی نہ سیاسی طور پر اور نہ ہی اس وقت یہ قابل عمل مطالبہ ہے، جب تک پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان نئے صوبوں کے حوالے سے کوئی ہم آہنگی یا اتفاق رائے نہیں ہو جاتا اس وقت تک نئے صوبے کا قیام بہت مشکل ہے، جنوبی پنجاب کے حوالے سے بڑی سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے موجود ہے، اس کے باوجود نہیں پایا تو یہ تو بہت دور کی بات ہے۔‘

پشتون بلوچ برابری کا سوال

رفیع اللہ  کہتے ہیں کہ پشتون بلوچ برابری کا سوال بھی وہ خیال ہے جسے غلط سمجھا گیا، جہاں تک بطور دو اقوام دو نسلی گروہوں کا سوال ہے تو چاہے کسی بھی قوم کی کتنی آبادی ہو وہ برابر ہوتے ہیں، ان کی ثقافت، ان کی زبان کا تحفظ ہونا چاہیے، ان کو برابری کی سطح پر دیکھنا چاہیے یہ بالکل درست ہے، لیکن جہاں تک بات وسائل کی تقسیم کی ہے، ملازمتوں کی تقسیم کی ہے، اس میں برابری نہیں ہو سکتی ہے، یہ مضحکہ خیز بات ہے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اس مطالبے پرنواب اکبر بگٹی مرحوم کے صاحبزادے جمیل اکبر بگٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پشتونخوا میپ کے سربراہ کا بیان بلوچ پشتون قوم کے درمیان تفریق ڈالنے اور اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنے کی وقت و حالات کے حوالے سے کوشش ہے۔

ادھر سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار محمود خان اچکزئی کے اس بیان پر کہتے ہیں کہ وہ 70 سال سے یہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ صوبہ پشتونخوا بنایا جائے اور اب برٹش بلوچستان کی بات کر رہے ہیں۔ اب ان کو برٹش سے پیار ہے یا بلوچستان سے ہے، وہ شاید کچھ اپنی جماعت میں دھڑے بندی سے پریشان ہیں۔

شہزادہ ذوالفقار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا برٹش بلوچستان میں پشتون علاقوں کے ساتھ چاغی، نوشکی، نصیرآباد، ڈیرہ بگٹی ، بارکھان، مری کا علاقہ سبی بھی شامل تھا، اب وہ کیسے بلوچ اکثریتی علاقے کے عوام ان کی حمایت کریں گے؟

’مجھے لگتا ہے کہ محمود خان اچکزئی پریشان ہیں، ان کی جماعت کے نظریاتی کارکن ان کو چھوڑ چکے ہیں، ان کے مدمقابل کوئی پشتون قوم پرست ایسا نہیں ہے، عام پشتونوں کے لیے ان کی شخصیت متاثر کن ہے کیوں کہ ان کی اور ان کے والد نے پشتوںوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے، عام پشتون ان کی حمایت کریں گے، لیکن نظریاتی کارکن ان کو چھوڑ چکے ہیں اور انہوں نے عثمان کاکڑ کے بیٹے کو اپنا سربراہ بھی مقرر کر دیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان