بلوچستان: شدت پسندی میں تیزی کی وجوہات کیا ہیں؟

عسکریت پسندی کے واقعات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے خیال میں گلزار امام کی گرفتاری کے بعد بلوچستان میں عسکریت پسندی کے واقعات میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

پاکستان کے نیم فوجی دستے 15 جون 2013 کو صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک ہسپتال پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد پوزیشن سنبھال رہے ہیں(اے ایف پی)

بلوچستان میں شدت پسندی کی لہر میں تیزی آ گئی ہے، ایک روز میں بلوچ مسلح گروہ نے متعدد حملوں کا دعویٰ کیا، جن میں کوئٹہ کے مرکزی بازار میں پولیس اور سریاب میں ایس ایچ او کی گاڑی پر اور اگلے روز بولان میں ریلوے ٹریک پر حملے شامل ہیں۔

پاکستانی فوج کی طرف سے سات اپریل کو بی این اے کے سربراہ مسلح مزاحمت کار گلزار امام کی گرفتاری کا اعلان کیا گیا، جس کے بعد شدت پسندی کے واقعات میں تیزی آتی نظر آئی۔

انڈپینڈنٹ اردو نے تجزیہ کار اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا سے اس رجحان کے حوالے سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ گلزار امام کی گرفتاری کو حالیہ شدت پسندی کے واقعات میں تیزی کی وجہ کے طور پر رد کرتے ہوئے کہا کہ اس گرفتاری کا گذشتہ سال سے سننے میں آ رہا ہے۔

’یہ تو انسرجنسی کی رفتار ہے، جو کبھی کم اور کبھی تیز ہوجاتی ہے۔ میرے خیال میں ان واقعات کا گرفتاری سے کوئی تعلق نہیں ہے، ابھی حملوں میں تیزی ہے، کچھ عرصے کے بعد کمی اور پھر تیزی آتی ہے، یہ سلسلہ ایسے ہی چل رہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’تاہم کوئٹہ، کچلاک، قلعہ سیف اللہ میں جو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) متحرک ہے، یہ بڑا خطرہ ہے، جس میں کوئی دو آرا نہیں ہیں۔‘

دوسری جانب بلوچستان میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی جانب سے 29 مارچ کو ایک ٹویٹ میں بتایا گیا کہ مسلح گروہوں بی ایل اے، بی ایل ایف اور بی آر جی نے سات موبائل ٹاورز کو تباہ اور دو تعمیراتی سائٹس کو متاثر کیا، جبکہ ریلوے ٹریک اور گیس پائپ لائن کو بھی نشانہ بنایا، حتیٰ کہ ٹیوب ویل بھی ان کا نشانہ بنے۔ ان کارروائیوں میں نو شہری ہلاک اور 27 زخمی ہوئے۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ اعداد و شمار کتنے عرصے کے ہیں۔

ادہر وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیا اللہ لانگو کی صدارت میں منگل کو امن و امان کے حوالے سے اہم اجلاس میں بتایا گیا کہ گذشتہ دو روز کے دوران بلوچستان میں عسکریت پسندی کے چار واقعات ہوئے، جن میں سے اکثر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنایا گیا۔

وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے کہا کہ سرکاری اہلکاروں پر حملوں کی منصوبہ بندی کو ناکام بنانے کے لیے مزید متحرک کردار ادا کرنا ہو گا اور صوبائی حکومت اس مقصد کے لیے ترجیحی بنیادوں پر وسائل فراہم کرے گی۔

گلزار مام کی گرفتاری کی اہمیت

بلوچستان سے تعلق رکھنے والےامریکہ میں مقیم صحافی ملک سراج اکبر جو انسرجنسی اور شدت پسندی پر گہری نظر رکھتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ گلزار امام کی گرفتاری کا مسلح تنظیموں خصوصا ان کی اپنی تنظیم پر گہرا اثر پڑے گا۔

ملک سراج اکبر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’گلزار بلوچ نیشنلسٹ آرمی کا بڑا منصوبہ ساز تھا، میرا نہیں خیال کہ ان کو جلد ایسا لیڈر دوبارہ مل سکتا ہے۔‘

’اس گرفتاری کے بعد لوگ فرسٹریشن کا شکار ہو سکتے ہیں، وہ خوف زدہ بھی ہوں گے، کیوں کہ اگر پاکستانی حکام کو گلزار سے کوئی معلومات حاصل ہوتی ہیں تو میدان میں موجود لوگوں کی گرفتاری کا خطرہ ہو سکتا ہے۔‘ 

ملک سراج گلزار کی گرفتاری میں اندر سے کسی کے ملوث ہونے کے امکان کر رد کرتے ہوئے کہا: ’پاکستانی حکام کا اپنا نیٹ ورک ہے، جو کوشش کرتے ہیں کہ مقامی لوگوں کے ذریعے معلومات حاصل کریں، انہی کے ذریعے گلزار امام کو گھیر کر گرفتار کیا گیا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’گلزار اس وجہ سےبھی اہم رہنما تھا کہ وہ دوسرے گروہوں سے بھی رابطے میں تھا اور مذاکرات بھی کرتا رہا تھا۔ اتحاد بھی بنائے، مگر ان کے پاس اس جیسا رہنما اب نہیں رہا۔

’اس سے قبل ہم نے دیکھا کہ مکران سے کوئی بھی انسرجنسی میں شامل نہیں رہا، اس بار مکران شریک ہے، تاہم ابتدا میں ان لوگوں نے باہر کے لوگوں کی پیروی کی جیسے آوران کے ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ اور نواب خیر بخش مری۔‘

ملک سراج کے بقول: ’گلزار امام وہ بندہ ہے جس نے براہمداغ بگٹی سے اختلاف کیا، اس نے الگ دھڑا بنایا، منصوبہ سازی بڑا مشکل کا ہے، یہ تنظیمیں اس گرفتاری کے بعد تقسیم کا شکار ہو سکتی ہیں۔‘

ملک میں شدت پسندی کے معاملات کو مانیٹر کرنے والے ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے مینیجنگ ڈائریکٹر عبداللہ خان کہتے ہیں بلوچستان میں شدت پسندی کے واقعات میں تیزی پچھلے سال اگست سے دیکھنے میں آئی ہے۔

عبداللہ خان نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ بلوچستان میں حملوں میں تیزی کے ساتھ اس کے نتیجے میں ہلاکتوں اور زخمی افراد کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اگست 2022 میں 12حملے، ستمبر میں سات، اکتوبر میں 14، نومبر میں نو اور دسمبر میں 17 ریکارڈ کیے گئے، اسی طرح رواں سال جنوری میں حملے کچھ کم ہوئے جو تعداد میں نو تھے، جبکہ فروری میں ان حملوں کی تعداد 22 ہو گئی۔

انہوں کا کہنا تھا کہ مذہبی گروہوں کے علاوہ سب سے شدت پسندی میں ملوث بلوچ قوم پرست گروہ ہیں، جبکہ تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) بھی ان کے ساتھ سرگرم ہے۔

عبداللہ خان کے مطابق: ’ٹی ٹی پی اب بلوچ اکثریتی علاقوں میں اپنا نیٹ ورک بنا رہی ہے۔ پہلے یہ گروہ صرف پشتون علاقوں میں جیسے کوئٹہ اور شمالی بلوچستان میں موجود تھی، جہاں انہوں نے اپنی ولایتیں بھی قائم کی ہیں۔

’اب اس تنظیم میں بلوچ اور براہوی بولنے والے لوگ بھی شامل ہو رہے ہیں، جو بلوچستان کے حوالے سے نیا مںظرنامہ ہے۔‘

ان کے خیال میں یہ صورت حال بلوچستان میں معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دے گی۔

’ماضی میں بھی بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کے درمیان تعلقات رہے ہیں، یہ ایک دوسرے ساتھ معلومات کاتبادلہ بھی کرتے ہیں،یہ تعلق اب بھی موجود ہے، داعش پہلے سے بلوچ علاقوں میں سرگرم ہے۔‘

عبداللہ خان کہتے ہیں کہ رواں سال فروری میں تحریک جہاد پاکستان کے نام سے ایک نیا گروپ بھی منظر عام پر آیا ہے، جس نے سبی کے قریب پولیس ٹرک پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مذکورہ گروہ، جس کی تحقیق ہو رہی ہے، ٹی ٹی پی کا سپلینٹر بھہ ہو سکتا ہے کیوںکہ اس کے بیان سے ان کا دیوبند مکتبہ فکر سے تعلق کا تاثر ملتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عبداللہ خان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں بلوچستان میں جاری عسکریت پسندی کے واقعات کو سرداروں کے پیروکار کے درمیان بے روزگاری اور معاشی حالات کے باعث لڑائیاں قرار دیا جا رہا ہے، جو بالکل غلط ہے۔

انہوں نے کہا 2017 میں اسلم اچھو نے بی ایل اے کا علیحدہ دھڑا بنا کرحیربیار مری گروپ سے علیحدگی اختیار کی تھی اور جب اس نے اپنے بیٹے کو خود کش حملے کے لیے بھیجا تو اس وقت سے حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔

’اس سے قبل ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ بھی پڑھا لکھا تھا جبکہ اسلم اچھو کے بعد بشیر زیب نے بھی ایک نیا ٹرینڈ متعارف کروایا، جس نے پڑھے لکھے لوگوں کو متاثر کیا، جیسے شاری بلوچ وغیرہ۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ براہمدغ بگٹی اور حیربیار مری سے مذاکرات کرکے یا بلوچ سرداروں کو قابو میں کرکے بلوچستان میں امن لایا جاسکتا ہے، تو اب یہ ممکن نہیں رہا، ان کا اثر رسوخ کم ہو گیا ہے اور بی این اے کا قیام اس کی مثال ہے۔‘

عبداللہ کہتے ہیں کہ جتنے ہائی پروفائل حملے ہوئے وہ سرداروں کے اثر سے آزاد ہونے والے گروہ کر رہے ہیں۔

عبداللہ خان نےشدت پسندوں کے حملوں کے حوالے سے بتایا کہ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران ایران سرحد سے متصل علاقوں میں زیادہ حملے دیکھے گئے ہیں، جبکہ صوبے سے باہر بھی کاروائیاں کی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ بی ایل اے مجید بریگیڈ کے کراچی میں حملے ہوئے، اس کے لوگ بھی کراچی سے گرفتار ہوئے ہیں، اس طرح سندھ میں شدت پسندی ہو رہی ہے، سندھو دیش کی انسرجنسی کی شدت کم ہے، لیکن اس کے حملے ہو رہے ہیں، جو خطرے کی نشاندہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان