ہانگ کانگ کی سرحد پر چینی فوج اکٹھی: ’کچھ بہت برا ہونے والا ہے‘

مظاہرین نے ہانگ کانگ کے ایئرپورٹ کو گھر بنا رکھا تھا جو بدھ کو دو دن کے بعد فلائٹس کے لیے کھلا۔

ہانگ کانگ میں پولیس احتجاج میں شامل ایک شخص کو گرفتار کرکے لے جارہی  ہے (اے پی)

ایک طرف جہاں ہانگ کانگ میں دو دن سے ایئرپورٹ پر قابض مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں، وہیں ایک ویڈیو بھی منظرِعام پر آئی ہے جس میں ہانگ کانگ سے 30 کلومیٹر دور چین کے شہر شین زین میں چینی نیم فوجی دستوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو جمع ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔

پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں شام کو اُس وقت شروع ہوئیں جب طبی عملے کی جانب سے ایک زخمی کی مدد کی کوشش کی گئی، جسے مظاہرین نے انڈرکور ایجنٹ ہونے کے شبے میں پکڑ رکھا تھا۔

 پُرتشدد مظاہروں کے دوران مظاہرین نے دیگر دو افراد کو بھی انڈرکور ایجنٹ ہونے کے شبے میں مارا پیٹا ہے۔ پولیس نے اعتراف کیا تھا کہ وہ خفیہ اہلکاروں کا استعمال کر رہی ہے جبکہ مظاہرین کے لباس میں سیاہ نقاب پہنے افراد کی جانب سے مظاہرین کو گرفتار کرنے کی تصاویر بھی سامنے آئیں، جس کے بعد تشدد کی لہر شروع ہوگئی۔

دونوں واقعات میں دیکھا گیا کہ مظاہرین دو افراد کو زمین پر گرا کر، ان کے ہاتھ باندھ کر تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آخر کار طبی عملہ دونوں زخمیوں تک پہنچ پایا اور ان کو وہاں سے لے جایا گیا۔

ایک واقعے میں مظاہرین نے ایک شخص کو پکڑنے کے بعد دعویٰ کیا کہ وہ چین سے تعلق رکھنے والا ایک انڈرکور ایجنٹ ہے۔ مظاہرین نے پکڑے گئے شخص کے بٹوے میں موجود شناختی دستاویز نکال کر صحافیوں سے ان کی تصاویر لینے کو کہا۔ کسی بھی دستاویز سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ اس شخص کا تعلق پولیس سے ہے لیکن مظاہرین کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے جنوبی صوبے گوانگ ڈونگ کے پولیس افسران کے ناموں پر مبنی ایک آن لائن فہرست میں اس کا نام دیکھا ہے۔

مظاہرین میں شامل 18 سالہ سیلی ٹونگ کا کہنا تھا کہ اس شخص کو قید میں رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ ثبوت ہے کہ چینی حکام ہانگ کانگ مظاہروں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ٹونگ نے کہا: ’یہ شخص مظاہرین کی طرح لگنے کے لیے سیاہ نقاب اوڑھے ہوئے تھا۔ ہم اس سے پوچھ گچھ کرنا چاہتے ہیں۔‘

مظاہرین نے چین سے تعلق رکھنے والے ایک اور شخص کو بھی پکڑ لیا تھا۔ لیکن اس کی شناخت کے بارے میں ان میں اتفاق نہیں ہو سکا۔ کچھ کے مطابق وہ کوئی جرائم پیشہ شخص تھا جبکہ کچھ اسے جعلی رپورٹر بتا رہے تھے۔ کچھ افراد نے اس پر مظاہرین کا روپ دھارنے کا الزام بھی عائد کیا۔ اس شخص کے دونوں ہاتھ باندھنے کے بعد مظاہرین نے اس کے سر پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا جبکہ ہوائی اڈے پر موجود حفاظتی دستہ مظاہرین کو روکنے میں ناکام رہا۔

چینی قوم پرست اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ کے ایڈیٹر اِن چیف ہوو شی جن کے مطابق مظاہرین کی قید میں موجود شخص ان کا نامہ نگار ہے۔ اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر انہوں نے لکھا: ’فو گواہو گلوبل ٹائمز کی ویب سائٹ کے رپورٹر ہیں جن کو ہانگ کانگ کے ہوائی اڈے پر مظاہرین نے پکڑ رکھا ہے۔ میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ اس ویڈیو میں رسیوں میں جکڑا شخص ایک رپورٹر ہے جو وہاں مظاہروں کی رپورٹنگ کرنے کی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے موجود تھا۔‘

مظاہرین نے پولیس کی کئی گاڑیوں کا راستہ بھی روکا۔ پھر انسداد تشدد پولیس مظاہرین کو پیچھے دھکیلنے کے لیے آئی اور لاٹھی چارج اور مرچوں کے سپرے کا استعمال کیا جس کے جواب میں مظاہرین نے پولیس پر بوتلیں اور پتھر پھینکے۔ بڑی تعداد میں مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا۔

جھڑپوں کی مزید ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین نے ایک مسلح اہلکار کو گھیرے میں لے رکھا ہے جو ایک خاتون کو زمین پر لگائے ہوئے ہے۔ مظاہرین نے اہلکار سے اس کا ڈنڈا چھین کر اسے اُسی سے تشدد کا نشانہ بنایا۔ جب اہلکار نے اپنا پستول نکال لیا تو مظاہرین وہاں سے بھاگ گئے۔

دن کے دوران پروازوں کو روانہ ہونے اور آمد کی مختصر اجازت تھی، مگر بعد میں حکام نے ہانگ کانگ کے مقامی وقت شام ساڑھے چار بجے ایئرپورٹ دوبارہ بند کردیا گیا، تاہم وہ پروازیں جو چیک اِن مکمل کرچکی تھیں ان کے آپریشن بحال رہے۔

ایئرپورٹ حکام کے مطابق آنے والی پروازیں اس پابندی سے متاثر نہیں ہوں گی لیکن اس کے باوجود درجنوں پروازیں منسوخ کی جا چکی ہیں۔ حکام کی جانب سے عوام کو ہدایت جاری کی گئی کہ وہ ایئرپورٹ نہ آئیں۔ ہانگ کانگ ایئرپورٹ دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شامل ہے۔

ہانگ کانگ کی چین نواز رہنما کیری لام نے منگل کو جاری ایک بیان میں کہا کہ شہر دس ہفتوں کے مظاہروں کے بعد ’ناقابلِ واپسی راستے‘ پر پہنچ چکا ہے جبکہ اقوام متحدہ نے چین کو علاقے میں بڑھتی بے چینی کے بعد تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تنبیہ کی ہے۔

چین کے سرکاری میڈیا نے شین زین سپورٹس سینٹر میں اکٹھے ہونے والے فوج کے دستے کو ’بڑے پیمانے پر فوجی مشقوں‘ کی تیاری کا نام دیا ہے۔ فوجی دستوں کی ویڈیوز کے حوالے سے یورپی یونین کی خارجہ امور کمیٹی کے مشیر الیگزینڈرے کراوس نے کہا کہ یہ ’کچھ بہت زیادہ برا‘ ہونے کی نشانی ہے۔

گلوبل ٹائمز کے مطابق 6 اگست کو ایسی ہی مشقوں میں 12 ہزار فوجی، ہیلی کاپٹر اور فوجی گاڑیاں دکھائی گئی تھیں۔ اخبار کے مطابق پولیس کے مسلح دستوں کو چینی قوانین کے تحت ’بغاوت، فسادات، پرتشدد واقعات، دہشت گرد حملوں اور سماجی حفاظتی معاملات سے نمٹنے کے اختیارات ہیں۔‘

طاقت کا یہ مظاہرہ ہانگ کانگ میں جاری مظاہروں کے حوالے سے بیجنگ کے ختم ہوتے صبر کی نشاندہی کرتا ہے۔ سوموار کو چینی حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ مظاہروں کی تحریک شہر میں ’دہشت گردی کی جڑوں‘ کو ظاہر کر رہی ہے۔

چین کی دہشت گردی کی تعریف کچھ وسیع ہے لیکن اس نے ماضی میں تبت اور سنکیانگ کے اقلیتی علاقوں میں پُر امن مہمات کو دہشت گردی کا نام دے کر زیادہ طاقت کے استعمال اور حراست میں لیے گئے لوگوں کے قانونی حقوق کو معطل کرنے کے اقدامات کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔  

1997 میں ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کرنے سے پہلے ہانگ کانگ میں برطانیہ کے آخری گورنر لارڈ کریس پیٹن نے گذشتہ دنوں میں بی بی سی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی فوجی دخل اندازی ’چین اور ہانگ کانگ کے لیے ایک سانحہ‘ ہوگی۔

لارڈ کرس پیٹن کے مطابق مظاہرے نہ رکنے کی صورت میں چین کی جانب سے ’دوسرے اقدامات‘ کی تنبیہ نقصان دہ ثابت ہوگی۔ لارڈ پیٹن کا کہنا تھا: ’جب سے صدر شی نے اقتدار سنبھالا ہے تب سے ہی ناقدین اور اختلاف کرنے والوں کے خلاف ہر جگہ کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ پارٹی نے ہر جگہ کو مکمل قابو میں لے لیا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ مظاہروں کے دس ہفتے جاری رہنے کے بعد حکومت اور صدر شی ایسے اقدامات کریں گے جو لوگوں کو متحد کر سکیں۔‘

دوسری جانب واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ پر امید ہیں کہ ہانگ کانگ میں جاری یہ ’مشکل‘ صورتحال کسی حل کی جانب جا سکے۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا: ’یہ ایک بہت مشکل صورتحال ہے۔ میرے خیال میں یہ حل ہو سکتی ہے، میں امید کرتا ہوں کہ یہ آزادی کی خاطر حل ہو سکے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ چین سمیت سب کے لیے حل ہو جائے۔ میں امید کرتا ہوں اس میں کوئی ہلاک یا زخمی نہیں ہوگا۔‘

بعد میں انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ امریکی انٹیلی جنس نے انہیں آگاہ کیا ہے کہ چینی حکومت نے ہانگ کانگ کے قریب فوجی جمع کرنا شروع کر دیے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا: ’سب کو تحمل رکھنا چاہیے اور محفوظ رہنا چاہیے۔‘

سوس یونیورسٹی لندن میں چینی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر سٹیو تسانگ کا کہنا ہے کہ طاقت کے بارہا اظہار کے باوجود ’ہم ابھی چین کی جانب سے ہانگ کانگ میں سکیورٹی فورسز کی تعیناتی سے دور ہیں۔‘

لیکن جب مظاہرین نے ہانگ کانگ میں واقع مرکزی حکومتی عمارت سے چینی جھنڈا اتار کر اسے مسخ کر دیا تو سٹیو تسانگ نے کہا کہ ’یہ (سکیورٹی فورسز کی تعیناتی) گذشتہ ماہ کے مقابلے میں اب زیادہ ممکن ہے۔‘

 تسانگ کے مطابق فوجی حرکت کے بجائے مظاہرین کے بارے میں چینی تاثر تبدیل ہونا بہت اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’بیجنگ ہانگ کانگ میں جاری مظاہروں کو ایک انقلاب کے طور پر دیکھتا ہے، امریکی حمایت یافتہ اعلیٰ سازش کا ایک حصہ جس کا مقصد چین میں حکومت کی تبدیلی ہے۔ یہ بات شی جن پنگ کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔‘

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی ہائی کمشنر مشیل بیچلیٹ کا کہنا ہے کہ ہانگ کانگ میں جاری مظاہروں کو دہشت گردی سے تشبیہ دے کر چین کشیدگی میں اضافہ کر رہا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ حکام صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس کی جانب سے طاقت کے بے جا استعمال کی تحقیقات کریں۔ مظاہرین کی جانب سے بھی یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

مشیل بیچلیٹ نے حالیہ جھڑپوں کی ویڈیوز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا :’پولیس اہلکار انفرادی، اجتماعی اور بند جگہوں پر احتجاج کرنے والے مظاہرین کی جانب آنسو گیس کے شیل پھینکتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں، جس کی وجہ سے ہلاکتوں اور لوگوں کے شدید زخمی ہونے کا خدشہ موجود ہے۔‘

دوسری جانب چین نے اقوام متحدہ کی جانب سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے اسے ایک ’غلط بیان‘ قرار دیا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ اس بیان نے ’جرائم پیشہ اور پُرتشدد مظاہرین کو غلط پیغام دیا ہے۔‘

اقوام متحدہ میں چین کے مشن نے ایک بیان میں کہا کہ ہانگ کانگ مظاہرین نے عوامی سہولیات کو نقصان پہنچایا ہے، ہوائی اڈے کو جامد کر رکھا ہے اور خطرناک ہتھیاروں کے استعمال سے سڑکوں کو بند کر دیا ہے۔ یہ سب ’دہشت گردی کے رجحانات کا اظہار ہے۔‘

مشن کے بیان میں کہا گیا: ’چین کی مرکزی حکومت ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لام اور ان کی حکومت کے قانون کے مطابق فرائض انجام دینے کی مکمل حمایت کرتی ہے اور قانون نافذ کرنے والی ہانگ کانگ پولیس اورعدلیہ کی بھی حمایت کرتی ہے۔‘

کیری لام نے بھی پولیس اور ان کی حکمت عملی کی مکمل حمایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ موقع پر موجود اہلکار ’کم سے کم طاقت کے استعمال سے‘ معاملے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

رپورٹرز کے ساتھ ایک گرما گرم سوال جواب سیشن کے دوران کیری لام کا کہنا تھا کہ مذاکرات صرف اُسی صورت شروع ہو سکتے ہیں ’جب مظاہرین کی جانب سے تشدد اور غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ کیا جائے گا۔‘

انہوں نے ایک بار پھر اپنے استعفے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا: ’میں بطور چیف ایگزیکٹو ہانگ کانگ کی معیشت کو دوبارہ بحال کر کے اس کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کی ذمہ دار ہوں۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا