تحریک انصاف کے بعض اہم رہنما کہاں ہیں؟

اسد قیصر نے کہا کہ ’جو افراد پارٹی چھوڑ رہے ہیں ان کے مفادات حاصل نہ ہو پائے ہوں یا وہ صرف ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے آئے ہوں۔‘

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی اور اسد عمر یکم نومبر 2016 کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں اور کارکنان کی گرفتاریوں کا عمل نو مئی کے بعد سے جاری ہے۔ بڑی تعداد میں اہم مرکزی پارٹی رہنما تو متعدد بار عدالتوں کی جانب سے رہائی کے باوجود گرفتار کر لیے گئے ہیں لیکن کئی بعض دیگر منظرعام سے ہی غائب ہیں۔

چئیرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک میں اہم اور حساس عمارتوں کو لگائی گئی آگ اور مختلف واقعات میں اس وقت پارٹی رہنماوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں کی تعداد میں کارکنان گرفتار ہیں۔ تاہم کئی رہنما جو اچھے دنوں میں پیش پیش رہے اب عوامی سطح پر بظاہر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے ان تمام سوالات اور تاثرات پر رائے لینے کے لیے پی ٹی آئی کے مختلف رہنماوں سے رابطہ کیا۔

سابق سپیکر قومی اسمبلی اور رہنما اسد قیصر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اس تاثر کو مسترد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کیسے نظر نہیں آ رہے، کیا میں مسجد میں جا کر اس سے متعلق اعلان کروں؟ میں یہیں موجود ہوں، ہائی کورٹ میں پیش ہوا 20 مقدمات ہوئے اور ان میں ضمانت لی۔‘

اسد قیصر نے پرویز خٹک کے پارٹی چھوڑنے سے متعلق افواہوں کو بھی مسترد کیا اور کہا کہ اس وقت تمام اراکین آن بورڈ ہیں اور حال ہی میں ایک آن لائن اجلاس ہوا جس میں پرویز خٹک موجود تھے۔ ’پارٹی قیادت اور رہنماوں کی پارٹی چھوڑنے سے متعلق غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہے۔ میں مرتے دم تک عمران خان کے ساتھ کھڑا ہوں۔‘

اسد قیصر نے انکشاف کیا کہ عمران خان نے پارٹی رہنماؤں کو گرفتاری سے بچنے کا کہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ فوج ہماری ہے۔ ہم فوج کو لیٹ ڈاون نہیں کرنا چاہتے، ہم صرف آئین پر عمل درآمد چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں۔‘

اسد قیصر نے رہنماؤں کے جماعت چھوڑنے سے متعلق کہا کے جو افراد پارٹی چھوڑ رہے ہیں وہ شاید اس لیے کہ ان کے مفادات یہاں حاصل نہ ہو پائے ہوں یا وہ صرف ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے یا پھر حکومت میں شامل ہونے کی وجہ سے آئے ہوں۔

’رہنما پارٹی چھوڑ رہے ہیں جن کے خلاف کیسز ہیں یا فائلز ہیں۔‘

پی ٹی آئی رہنما عاطف خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ وہ صوبے میں واحد رہنما ہیں جو سب سے زیادہ متحرک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ افراد اس لیے منظرعام پر نہیں کیوں کہ انہیں گرفتار کر لیا جائے گا، گرفتاری کا ڈر نہیں لیکن گرفتار اگر نہیں ہوں گے تو پارٹی قیادت کے ساتھ یا آپس میں کو آرڈینیشن بہتر رہے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ پارٹی قیادت نے گرفتار کارکنان سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کیا بلکہ ’ہم مسلسل کارکنان اور ان کے خاندانوں سے رابطے میں ہیں اور انصاف لائرز فورم مسلسل قانونی معاونت بھی کر رہا ہے جبکہ گرفتار کارکنان کے خاندان سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں، جن کے مالی مسائل ہیں ان کی مالی مدد بھی کر رہے ہیں۔‘

عاطف خان نے کہا کہ ’اس وقت وہ رہنما پارٹی چھوڑ رہے ہیں جن کے خلاف کیسز ہیں یا فائلز ہیں پھر انہیں گرفتاری کا ڈر ہے اور انہیں لگتا ہے کہ اگر وہ عمران خان کو سپورٹ کریں گے تو انہیں گرفتار کرلیا جائے گا۔‘

پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن کے آغاز سے پرویز خٹک، شوکت یوسفزئی اور سابق وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار عوامی سطح پر یا ٹی وی پر زیادہ دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے پی ٹی آئی کے ان میں سے چند رہنماوں پرویز خٹک اور شوکت یوسف زئی سے اس حوالے سے موقف لینے کے لیے رابطہ کیا لیکن اس رپورٹ کی اشاعت تک ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا تھا۔

گرفتار رہنماؤں کی صورت حال

تحریک انصاف ابتدا میں ان پرتشدد حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی رہی ہے لیکن اب بظاہر لاتعلقی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

عمران خان یہ دعوی کر رہے ہیں کہ مظاہروں کے دوران باہر سے کچھ افراد کو شامل کروا کر حساس عمارتوں کو آگ لگوائی گئی جبکہ پارٹی کے رہنما فواد چوہدری نے کچھ روز قبل میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ان کا علاقہ تو غازیوں اور شہیدوں کا مسکن ہے جنہوں نے حساس عمارتوں پر حملے کیے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

پارٹی کے کئی رہنما اور گرفتار کارکنان کے خاندان کی عمران خان سے شکوے کی ویڈیوز اور بیانات سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر آ چکے ہیں۔

پی ٹی آئی کی سینیئر رہنما اور سابق وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری نے ایک ٹیلی وژن پروگرام میں گفتگو کے دوران کہا کہ انہیں ’بہت افسوس ہوا کہ ان کی والدہ ہمیشہ عمران خان کے ساتھ کھڑی رہی ہیں لیکن انہوں نے میری والدہ کے اغوا پر ایک لفظ نہیں بولا، تو یقینا میں بہت زیادہ مایوس ہوئی ہوں۔ خاص طور پر وہ ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑی ہوئی تھیں اور اسی کی وجہ سے میری والدہ کو ٹارگٹ کیا گیا ہے، کم سے کم عمران خان کو شیریں مزاری کا نام لے کر مذمت کرنی چاہیے۔‘

پارٹی کے سینیئر رہنما فواد چوہدری کی اہلیہ حبا فواد بھی عمران خان سے ان کے شوہر کو بھول جانے کا شکوہ کرتی نظر آئیں۔

پارٹی چیئرمین عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سایٹ پر ایک ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے شاہ محمود قریشی، اسد عمر، شہریار آفریدی کی اہلیہ، شیریں مزاری اور سینیٹر فلک چترالی کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’میں گرفتاریوں کی مذمت کرتا ہوں اور مطالبہ کرتا ہوں کہ خواتین سمیت دیگر رہنماوں کو رہا کیا جائے۔‘

’پی ٹی آئی سے اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ چھن گئی ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات میں دراڑیں تو تقریبا دو برس قبل سے پڑتا شروع ہو گئی تھیں لیکن سینیئر صحافی مطیع اللہ جان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پی ٹی آئی جس وجہ سے آگے بڑھ رہی تھی وہ وجہ ان سے چھن گئی ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ تھی۔ آرمی چیف کا نام براہ راست لیا گیا اور عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کی حکمت عملی بہت خطرناک تھی۔

’فوجی تنصیبات پر حملے اور جو چھاونیوں میں ہوا ملک کی 75 سالہ تاریخ میں کوئی بھی سیاسی جماعت اس حد تک نہیں گئی۔ اس لیے تحریک انصاف کو پیچھے ہٹنا ہی تھا۔ ان واقعات کے بعد جو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ردعمل آیا اس کے بعد پی ٹی آئی کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ ان واقعات اور ان میں ملوث افراد سے لاتعلقی کا اظہار کرے۔ 

’اگر پی ٹی آئی ایسا نہ کرتی تو اس کے لیے پھر شاید  پاکستان کے قانون کے مطابق اس کا ایک سیاسی جماعت کے طور پر وجود ہی ممکن نہیں تھا۔‘

مطیع اللہ جان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت بھی تحریک انصاف کا وجود مشکوک رہے گا جب تک کارکنان کے خلاف کارروائی مکمل نہیں ہو جاتی اور یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سینیئر قیادت ان واقعات میں ملوث نہیں ہے۔

’جس طرح یہ جماعت بنائی گئی، اسی طرح ٹوٹ رہی ہے‘

’اہم رہنما گرفتاری سے بچنے کے لیے منظر عام سے غائب ہیں تو دوسری وجہ یہ ہے کہ چونکہ بہت سے رہنما پولیس کو مطلوب ہیں اس لیے وہ انڈر گراونڈ چلے گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب رہنما ہی نہیں ہیں تو کارکنان بھی بکھر گئے ہیں۔‘

مطیع اللہ نے کہا جو بلند و بالا عمارتیں انجنیئیر بناتے ہیں، حادثے کی صورت میں ان کے گرنے کی ترتیب نہیں ہوگی تو نقصان زیادہ ہوگا۔ ’پی ٹی آئی کے بھی جو یہ ٹوئن ٹاور بنائے گئے تھے اسی حادثے کے لیے ایک ایسی انجنیئرنگ بھی کی تھی کہ یہ دوسری عمارتوں پر جا کر نہ گریں، وہی ہو رہا ہے۔

’جب دوسری جماعتوں سے لوگوں کو اکٹھا کر کے پی ٹی آئی بنائی اور وہی مانگے تانگے کے منتخب افراد لیے گئے تو ان افراد نے خوف یا دوسرے موقع کے لیے جماعت چھوڑنا ہی تھی۔ جس طرح یہ جماعت بنائی گئی، اسی طرح ٹوٹ رہی ہے۔‘

سینیئر صحافی و تجزیہ کار جاوید چوہدری نے اپنے تازہ وی لاگ میں دعوی کیا ہے کہ پی ٹی آئی سے مزید چھ اعلی سطح کے رہنما پی ٹی آئی کو چھوڑنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

ان کے مطابق: ’اسد عمر، پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی اور اسد قیصر اور عمران خان کے دائیں بائیں نظر آنے والے چند دوستوں سمیت چھ رہنما پی ٹی آئی اور عمران خان سے فاصلہ اختیار کر چکے۔‘

جاوید چوہدری کا کہنا تھا کہ ’ایوان صدر میں بھی بڑی تبدیلی آئی ہے جس میں صدر ان تمام واقعات کی مذمت کرتے نظر آئیں گے۔ عمران اسماعیل بھی تبدیل ہوتے نظر آئیں گے۔ حلیم عادل شیخ کا سافٹ ویئر بھی تیزی سے تبدیل ہوگا۔ پی ٹی آئی میں بڑی دراز پڑ چکی ہے۔‘

ان کے مطابق: ’زمان پارک میں میلہ اجڑ چکا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست