کوئٹہ: کالعدم تنظیم کے سربراہ گلزار امام کو میڈیا کے سامنے پیش کر دیا گیا  

گلزار امام نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مسائل کا حل پرامن بات چیت سے نکالا جائے، کئی سالوں سے جاری لڑائی میں نقصانات کا احاطہ کرنا چاہیے۔ میں نے محسوس کیا ریاست ایک ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے ہمیں اصلاح کا موقع دے گی۔‘

گلزار امام (سکرین گریب، ایگل آئی پی ایس ایف ٹوئٹر آفیشل)

بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے) کے سربراہ گلزار امام شنبے کو منگل کے روز کوئٹہ سول سیکرٹریٹ میں میڈیا کے سامنے پیش کر دیا گیا۔

اس دوران گلزار امام نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ’گرفتاری کے بعد مجھے اپنےماضی کو دیکھنےکا موقع ملا اور اس تجربے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ مسلح جدوجہد کا جو راستہ میں نے اختیار کیا وہ غلط تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’دونوں جانب سے اس لڑائی میں جتنے لوگ مارے گئے ان سب سے معافی کا طلب گار ہوں۔‘

’مسلح جدوجہد سے مسائل حل نہیں ہوں گے، نقصان صرف بلوچ قوم کا ہو رہا ہے، بلوچ قوم اس کی وجہ سے پسماندگی کی طرف گئی ہے۔‘

گلزارامام نے مزید کہا ’میرا تعلق بلوچستان کے ضلع پنجگور کے علاقے پروم سے ہے، میں 15 سال سے بلوچ مسلح جدوجہد میں متحرک رہا ہوں، اب میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کے حقوق کی جنگ آئین اور قانون کے تحت لڑی جاسکتی ہے۔‘

گلزار امام بظاہر صحت مند نظر آ رہے تھے، ان کی شیو بنی تھی، سفید شلوار قمیض میں تھے اور کالی ویسٹ کوٹ پہن رکھی تھی۔  

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ایک ٹویٹ میں سکیورٹی فورسز کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’امن کی بحالی کے لیے ان کی انتھک کوششوں کے لیے سکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ڈی جی آئی ایس آئی اپنی نوعیت کی اولین اور مختلف جغرافیائی مقامات پر کیے گئے انتہائی پیچیدہ انٹیلی جنس آپریشنز کو بڑی نفاست کے ساتھ انجام دینے پر تعریف کے مستحق ہیں۔‘

گلزار امام نے مزید کہا کہ ’مسائل کا حل پرامن بات چیت سے نکالا جائے، کئی سالوں سے جاری لڑائی میں نقصانات کا احاطہ کرنا چاہیے، میں نے محسوس کیا ریاست ایک ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے ہمیں اصلاح کا موقع دے گی۔‘

گلزارامام نے کہا کہ ’میں تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کی کوشش کروں گا، باقی بات چیت کے لیے میری سوچ ہے کہ رابطےکی کوشش کروں تاکہ جو دوست وہاں بیٹھے ہیں وہ واپسی کا راستہ اپنائیں اور بلوچستان کی حقیقی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔‘

اس موقع وزیر داخلہ میر ضیا لانگو نے کہا کہ ’ریاست بات چیت پر یقین رکھتی ہے، حکومت کی کوشش ہے کہ مسائل بات چیت کے ذریعے حل کریں، بات چیت آخری آپشن ہے۔‘

’جس کو حقوق نہیں ملتے وہ پاکستان کے آئین و قانون کے تحت حقوق مانگے، لیکن وہ لوگ جو ریاست کی بنیادوں سےکھیلیں گے ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہو گی، کوئی بات چیت کرنا چاہتا ہے تو ہم تیار ہیں۔‘

سنیٹر آغا عمراحمد زئی نے اس موقع پر کہا کہ ’ہمارے سامنے ایران عراق کی جنگ کی مثال ہے، جن کے درمیان لڑائی ہوئی اور آخر مسئلہ مذاکرات سے حل ہوا۔ افغانستان آپ کے سامنے ہے، جس نے سپر پاور سے لڑائی کی اور آخر میں مذاکرات ہوئے، میں سمجھتا ہوں کہ مفاہمتی عمل کو ختم نہیں ہونا چاہیے۔‘

’حکومت کو طلبہ کے لیے راستہ کھولنا چاہیے، پانچ ہزار طلبہ سالانہ گریجویٹ ہوتے ہیں، روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں، ان کو مصروف رکھا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گلزار امام کی گرفتاری کی خبر پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی طرف سے سات مئی کو جاری کی گئی تھی جس میں  بتایا گیا کہ سکیورٹی فورسز  نے انٹیلی جنس آپریشن میں ہائی ویلیو ٹارگٹ گلزار امام عرف شمبے کو گرفتار کیا۔‘

آئی ایس پی آر کے مطابق بی این اے، بلوچ ریپبلکن آرمی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے انضمام سے وجود میں آئی تھی نیز بلوچ نیشنلسٹ آرمی پنجگور اور نوشکی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں میں ملوث ہے۔ 

آئی ایس پی آر کے مطابق گلزار امام 2018  تک بلوچ ریپبلکن آرمی میں براہمداغ بگٹی کے نائب بھی رہے۔ 

آئی ایس پی آر کے مطابق گلزارامام کو مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ ایک کامیاب آپریشن کے بعد گرفتار کیا گیا اور یہ گرفتاری بی این اے اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ دشمن انٹیلیجنس ایجنسیوں سے گلزار امام کے روابط کی چھان بین کی جا رہی ہے۔ 

پریس کانفرنس کے دوران میڈیا کو موبائل اور کیمرے لانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

میڈیا کے نمائندوں کی طرف سے تین سوالات پوچھنے کے بعد میر ضیا لانگو نے مزید سوال روک دیے اور کہا کہ ’گلزار امام شامل تفتیش ہے اس لیے مزید سوالات نہیں کیے جا سکتے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان