افغانستان میں سکول کی 60 طالبات کو زہر دے دیا گیا: پولیس

صوبہ سر پل کے پولیس ترجمان دین محمد نظری نے بتایا کہ ’ضلع سانچارک میں کچھ نامعلوم افراد لڑکیوں کے سکول میں داخل ہوئے اور کلاسوں کو زہرآلود کردیا، جب طالبات کلاسوں میں آئیں تو وہ اس سے متاثر ہوگئیں۔‘

14 مئی2023 کی اس تصویر میں افغان صوبہ ننگرہار کے ضلع خوگیانی کے ایک اوپن ایئر پرائمری سکول میں طالبات ایک کلاس میں شرکت کر رہی ہیں (شفیع اللہ کاکڑ/ اے ایف پی)

افغانستان کے شمالی صوبے سر پل کے ضلع سانچارک میں پولیس کے مطابق 60 طالبات کو ان کے سکول میں زہر دیے جانے کے بعد ہسپتال میں داخل کروایا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سر پل کے پولیس ترجمان دین محمد نظری نے بتایا کہ ’ضلع سانچارک میں کچھ نامعلوم افراد لڑکیوں کے سکول میں داخل ہوئے اور کلاسوں کو زہر آلود کردیا، جب طالبات کلاسوں میں آئیں تو وہ اس سے متاثر ہوگئیں۔‘

تاہم پولیس ترجمان نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ کس قسم کا زہر استعمال کیا گیا یا اس واقعے کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ طالبات کو ہسپتال منتقل کردیا گیا اور ان کی حالت ٹھیک ہے جبکہ کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

اس سے قبل سر پل کے انفارمیشن اینڈ کلچر کے سربراہ عمیر سرپلی نے بی بی سی پشتو سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ ضلع سانچارک کے دو سکولوں میں کچھ لڑکیوں اور اساتذہ کو زہر دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک سکول میں 60 طالبات اور اساتذہ کو اور دوسرے سکول میں 17 طالبات کو زہر دیا گیا اور چند متاثرہ لڑکیوں کو سر پل کے صوبائی ہسپتال لے جایا گیا۔

عمیر سرپلی نے مزید کہا کہ یہ ’کسی نیٹ ورک‘ یا کسی ’ذاتی مسئلے‘ کی وجہ سے بھی ممکن ہو سکتا ہے۔

سر پل میں طالبان کے ایک اور مقامی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’سانچارک ضلع میں اب کلان اور فیض آباد نامی دو سکولوں کی طالبات کو زہر دیا گیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’زہر دیے جانے کی وجہ بھی معلوم نہیں ہوسکی اور جانچ کے مقصد کے لیے متعلقہ حکام علاقے میں گئے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغانستان میں طلبہ کو زہر دینا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گذشتہ حکومت کے دوران مختلف صوبوں میں متعدد بار سکول کے طلبہ کو زہر دیا جا چکا ہے۔

قدامت پسند ہمسایہ ملک ایران کے مختلف شہروں کے سکولوں میں بھی اس سے قبل زہر خورانی کے واقعات نے طالبات کے اہل خانہ کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر واقعات صوبہ قم میں پیش آئے۔

انڈپینڈنٹ فارسی کے مطابق سانچارک شہر اور خاص طور پر جن محلوں میں طالبات کو زہر دینے کا واقعہ پیش آیا ہے وہاں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ تک رسائی مشکل ہے اور اسی وجہ سے ان طالبات کے زہر کھانے کی کم تفصیلات عوام کے سامنے پیش کی گئی ہیں۔  

مقامی باشندے چاہتے ہیں کہ طالبان ان طالبات کو زہر دینے کے مجرموں کو گرفتار کریں اور ایسے واقعات دوبارہ نہ ہونے دیں۔

طالبان 21 ماہ سے زیادہ عرصے سے افغانستان پر حکومت کر رہے ہیں اور اس دوران انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کو صرف پرائمری سکول کی چھٹی کلاس تک محدود رکھا ہے۔ صوبہ سر پل میں طالبات کو زہر دینے سے اہل خانہ میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین