مدر آف ڈیموکریسی کا ’نعرہ آزادی‘ کے خلاف اعلان جنگ!

لندن کی سڑکوں پر لگنے والے ایک نعرے نے برطانوی وزیر داخلہ سویلا بریورمین کی راتوں کی نیند اڑا رکھی ہے۔

2021 میں لندن میں فلسطینیوں کے حق میں ہونے والا مظاہرہ (فائل تصویر: اے ایف پی)

صدیوں سے حریت فکر اور اظہار رائے کے تحفظ اور اس کا پرچار کرنے والے برطانیہ میں ’فلسطین من البحر الی النہر‘ جیسے بے ضرر نعرے کے خلاف اعلان جنگ باعث حیرت ہے۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

برطانیہ کو دنیا میں جمہوریت کا مرکز خیال کیا جاتا ہے۔ برطانوی جمہوریت کی یہ شاندار عمارت کسی لکھے ہوئے آئین کے تحت نہیں بلکہ روایات پر کھڑی ہے۔

’مادر جمہوریت‘ کا ایک خوش کن پہلو یہ بھی ہے کہ اس کی لبرل امیگریشن پالیسی کا فائدہ اٹھا کر تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے مختلف الخیال اور مذاہب کے پیروکار یہاں قسمت آزمانے آئے اور پھر اپنی محنت سے بڑھ کر ’شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری‘ کی مجسم تفسیر بنے اور پھر برطانوی معاشرے میں اتنا رسوخ بڑھانے میں کامیاب ہوئے کہ قسمت کی دیوی نے ان دیسی براؤنز کو برطانیہ کے حکومتی ایوانوں تک پہنچا دیا۔

ان میں برطانیہ کی موجودہ وزیر داخلہ سویلا بریورمین بھی شامل ہیں۔ سویلا کی ہندو والدہ اوما کا تعلق انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو اور مسیحی والد کرسٹی فرنینڈس کا تعلق مغربی ریاست گوا سے ہے۔ برطانیہ میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے بعد سابقہ وزیراعظم لز ٹرس نے اپنی کابینہ تشکیل دی تو اس میں وزات داخلہ کا قلمدان انڈین نژاد 43 سالہ سویلا بریورمین کو سونپا گیا۔

حریت فکر کے چیمپیئن برطانیہ کی وزیر داخلہ سویلا بریورمین ان دنوں لندن کی سڑکوں پر لگنے والے ایک ’نعرہ آزادی‘ سے خائف دکھائی دیتی ہیں۔ فلسطینی تارکین وطن اور حریت پسند برطانوی شہریوں کے ’دریا سے سمندر تک آزاد فلسطین‘ کے نعرے نے برطانوی وزیر داخلہ کے دن کا سکون اور راتوں کی نیند اڑا رکھی ہے۔

اسرائیل کے غیر متزلزل حامیوں کی اکثریت بشمول برطانوی وزیر داخلہ، اس نعرے میں پوشیدہ فلسطین سے متعلق ایک سادہ سا پیغام سمجھنے سے قاصر ہیں کہ فلسطینی ریاست سے مراد غزہ، غرب اردن اور مشرقی یروشلم کے علاقے ہیں، یعنی وہ سرحد جو سنہ 1967 میں اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کے درمیان قائم تھی۔

ظلم سے نفرت اور تاریخ کی معمولی شدبد رکھنے والا ہر شخص سمجھتا ہے کہ فلسطین کی سرزمین مشرق میں دریائے اردن سے مغرب میں بحیرۂ روم اور شمال میں راس الناقورہ سے جنوب میں ام الرشراش تک ہے۔ یہ ایک باہم مربوط علاقائی یونٹ ہے۔ یہ فلسطینی عوام کی سرزمین اور ان کا وطن ہے۔

یہی وہ فلسطین تھا جس پر قابض برطانوی سامراج کی جانب سے دنیا بھر میں معتوب و در بدر یہود کے لیے بظاہر ایک وطن قائم کرنے کی نوید سنائی گئی تھی، لیکن حقیقت میں یہ صہیونیوں کے نام پر ہزاروں فلسطینیوں کے قتل اور لاکھوں کو بے گھر کرنے کا اجازت نامہ تھا۔

پہلی جنگِ عظیم کے دوران دو نومبر 1917 کو اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے اپنے ایک خط میں صہیونی رہنما لارڈ والتھر روتھشیلڈ کو لکھا تھا کہ ’مجھے شاہِ برطانیہ کی طرف سے آپ کو یہ بتاتے ہوئے بے حد خوشی ہو رہی ہے کہ درج ذیل اعلان صہیونی یہود کی امیدوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی ہے اور اس کی توثیق ہماری کابینہ بھی کر چکی ہے۔‘

وہ اعلان کیا ہے، بالفور کے مطابق: ’شاہِ معظم کی حکومت فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی حامی ہے اور اس مقصد کو پانے کے لیے اپنی ہر ممکن صلاحیت بروئے کار لائے گی، مگر اس بات کو مدِ نظر رکھا جائے کہ فلسطین کی موجودہ غیر یہودی آبادی (یعنی مسلمان اور مسیحی) کسی کے بھی شہری و مذہبی حقوق یا دیگر ممالک میں یہود کی سیاسی حیثیت کو نقصان نہ پہنچے۔ اگر یہ اعلان عالمی صہیونی تنظیم کے علم میں بھی لے آیا جائے، تو میں بہت ممنون ہوں گا۔‘

اس خط میں برطانوی کابینہ کی لفاظی بھی کمال ہے۔ غاصبوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ارض فلسطین پر قبضہ تو کریں، لیکن وہاں کے اصل باشندوں کو بے دخل نہ کریں۔

سوال یہ ہے کہ کیا برطانیہ بھی اس وقت اپنے زیرِ قبضہ خطوں میں اس بات کا لحاظ رکھتا تھا، جو اس کے لے پالک صہیونی رکھتے؟ برطانوی سامراج تو خود مختلف مقبوضہ علاقوں سے مقامی باشندوں کو بحری جہازوں میں بھر بھر کے دور دراز جزیروں پر پھینکتا رہا ہے۔

اعلان بالفور میں دوسری جانب دنیا میں یہود کی نیک نامی کے تحفظ کی بات کی گئی تھی، جو بجائے خود ایک مضحکہ خیز بات لگتی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ جس دور میں یہ خط لکھا گیا، اس وقت یورپ بھر میں یہود مخالف (سامی) تحریک عروج پر تھی اور اس کا ہدف یہود تھے، جنہوں نے اپنی سازشی سوچ کے باعث ماسکو سے لندن تک پورے مغرب کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ معلوم نہیں تاجِ برطانیہ کو یہود کی کس نیک نامی کی فکر تھی۔

پھر اس اعلان کے نتیجے میں واضح طور پر جو قتل و غارت ہوئی، وہ قیامت تک کے لیے صہیونیوں کے ساتھ ساتھ برطانویوں کی رو سیاہی کا سبب بنی اور برطانوی حکومت نہ صرف یہ جانتی تھی، بلکہ یہود کی آباد کاری کے لیے خود اس نے فلسطین میں مسلمانوں کا قتل کیا۔

اس اعلان نے قاتل اسرائیل کے وجود کو جنم دیا، جو آج بھی انسانی تہذیب کے لیے ایک بدنما داغ بنا ہوا ہے، لیکن برطانوی حکومت میں شامل سویلا بریورمین جیسی وزیر اس داغ کو دھونے کے بجائے 100 برس بعد بھی اسے مزین کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔

سویلا بریورمین اس امر پر شاکی ہیں کہ برطانیہ کے طول وعرض میں اسرائیل مخالف احتجاج میں مظاہرین ’من البحر الی النہر‘ جیسے یہود مخالف نعرے لگا رہے ہیں، جس پر ان کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فلسطین کو اسرائیلی چنگل سے آزاد دیکھنے کی خواہش کو یہود منافرت قرار دینا بظاہر احمقانہ بات لگتی ہے۔ اسرائیل اور اس کے حامیوں کے بے سرو پا دلائل کو مغربی دنیا کی حکمران اشرافیہ تو اہم سمجھتی تھی۔ ایسے میں صدیوں سے حریت فکر اور اظہار رائے کا تحفظ اور پرچار کرنے والے ملک برطانیہ میں نعرہ آزادی کے خلاف اعلان جنگ یقیناً باعث حیرت ہے۔

اسرائیل نواز جیوش کرونیکل سے بات کرتے ہوئے سویلا بریورمین نے بتایا کہ ’پورے فلسطین کی آزادی‘ کا نعرہ ہمیں قبول نہیں۔ ’امید ہے کہ پولیس اور استغاثہ ایسے نعرے لگانے والوں کی سرکوبی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔‘

برطانوی وزیر داخلہ نے آزادی فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کے تو خوب لتے لیے، تاہم اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کو ’حق دفاع‘ کا نام دے کر دنیا کو گمراہ کرنے والوں کے بارے میں تارک وطن برطانوی خاتون وزیر نے لب کشائی مناسب نہیں جانی جو ان کے ’امیتازی انصاف‘ کا مظہر ہے۔

سویلا اس حقیقت سے کیسے انکار کر سکتی ہیں کہ ماضی میں برطانیہ اسرائیل کی کئی پرتشدد کارروائیوں کی حمایت کر چکا ہے۔ ان میں اسرائیل کا 2006 میں لبنان پر حملہ اور گذشتہ 12 برسوں سے اسرائیل کے غزہ پر آئے روز حملے برطانوی اور مغربی دنیا کی حمایت سے جاری ہیں۔

برطانوی وزیر داخلہ نے ’نعرہ آزادی‘ کے خلاف محاذ کھول کر تاریخ سے اپنی عدم واقفیت کا پردہ چاک کیا ہے۔ وہ برطانیہ میں سرگرم اسرائیل نواز کیمونٹی سکیورٹی ٹرسٹ کی چکنی چپڑی باتوں سے ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ ’فلسطین من البحر الی النہر‘ کا نعرہ القاعدہ کے اسامہ بن لادن، صدام حسین سمیت فلسطین کی دیگر مزاحمتی تنظیمیں بھی لگاتی ہیں۔

پورے فلسطین کی آزادی کا یہ نعرہ دراصل برطانوی انتداب میں تاج برطانیہ کے زیر نگیں فلسطین کی جغرافیائی حدود متعین کرتا ہے۔ صد حیف! اس حقیقت سے شاید وزیر داخلہ صاحبہ اب تک آگاہ نہیں ہو سکیں۔

اگر برطانوی وزیر داخلہ اور ان کی سرپرسرستی میں کام کرنے والے کمیونٹی سکیورٹی ٹرسٹ کے غم وغصے کو ٹھنڈا کرنا مقصود ہے تو انہیں یہ بات تسلیم کرنا ہو گی کہ تاج برطانیہ جن سرحدوں کو فلسطین سمجھتا رہا ہے، وہ سب کی سب یہود مخالف سوچ کی عکاسی تھی؟

فلسطین کے نقشے کو سامی مخالف قرار دینا مناسب نہیں۔ صہیونی استعمار کے لیے تاج برطانیہ کی حمایت کا محرک یہودیوں کے حق میں تعصب تھا۔ برطانوی سیکرٹری خارجہ کی حیثیت میں آرتھر جیمز بالفور نے صہیونیوں کی حمایت میں جس اعلان پر دستخط ثبت کیے، اس میں جناب بالفور نے یہودیوں کو مغرب میں ’اجنبی اور دشمن‘ قرار دیا تھا۔ اعلان بالفور میں بیان کردہ نسلی امتیاز سے شہ پا کر یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کا حوصلہ ملا۔

برطانوی ہوم آفس نے اپنے حالیہ بیانیے میں تاج برطانیہ کی اسرائیل یا اس ریاست کے صہیونی نظریے سے متعلق حقائق سے نظریں چرا کر ویسی ہی تاریخی بدیانتی کا ثبوت دیا ہے، جیسی خیانت کا ارتکاب سویلا بریورمین نے خود کو اوور سپیڈنگ ٹکٹ کے جرمانے سے بچانے کی خاطر اپنے ماتحت دفتری ملازمین سے ’مشورے‘ طلب کر کے کیا۔

ایسے لوگوں کے خلاف مدر آف ڈیموکریسی کو سخت اقدام اٹھانا چاہیے تاکہ دنیا میں تاج برطانیہ کی رہی سہی عزت قائم رہ سکے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر