غزہ: اسلامک جہاد اور اسرائیل میں جنگ بندی، امریکہ کا خیرمقدم

فلسطینی تنظیم اسلامک جہاد اور اسرائیل نے پانچ روزہ جھڑپوں کے بعد مصر کی ثالثی سے جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے۔

فلسطینی تنظیم اسلامک جہاد اور اسرائیل نے پانچ روزہ جھڑپوں کے بعد مصر کی ثالثی سے جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے۔ امریکہ نے اس جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ہفتے کو رات گئے مصر کی ثالثی سے ہونے والے اس سیز فائر معاہدے سے قبل گذشتہ پانچ روز میں غزہ میں 33 افراد جان سے جا چکے تھے جبکہ اسرائیل میں بھی دو اموات ہوئی تھیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وائٹ ہاؤس نے پانچ روز سے جاری رہنے والی ان جھڑپوں کے بعد اس جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔

اس سیز فائر نے گذشتہ شب دس بجے نافذ العمل ہونا تھا لیکن آخری لمحات میں اسرائیلی فضائی حملوں اور غزہ سے راکٹ حملوں سے اس میں چند منٹ کی تاخیر واقع ہوئی۔

تاہم اس جھڑپ کے بعد اب حالات معمول پر آتے اور سکون واپس لوٹتا دکھائی دے رہا ہے۔

یہ سکون غزہ کے 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کے لیے بظاہر ایک راحت کا احساس لایا ہے جو حالیہ دنوں میں بڑی حد تک گھروں میں محدود ہو چکے تھے۔

 لیکن اس معاہدے نے ان بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا جن کے باعث کئی بار جھڑپوں کے دور ہو چکے ہیں۔

غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور فلسطینی گروپوں کے درمیان گذشتہ کئی برسوں سے کشیدگی جاری ہے۔

غزہ میں اسلامی جہاد کے ترجمان طارق سلمی نے کہا کہ ’اسرائیل نے گروپ کے رہنماؤں پر اہدافی حملوں کی اپنی پالیسی کو روکنے پر اتفاق کیا ہے۔‘

 انہوں نے مزید کہا کہ ’قابض افواج کی طرف سے کسی بھی حماقت یا حملے کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا اور اس کی ذمہ داری صہیونی دشمن پر عائد ہو گی۔‘

ادھر اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے قومی سلامتی کے مشیر زاچی ننیگیبی کا کہنا ہے کہ ’خاموشی کا جواب خاموشی سے دیا جائے گا۔ اسرائیل وہ سب کرے گا جو اس کے دفاع کے لیے ضروری ہے۔‘

تاہم یہ کشیدگی جلد ہی دوبارہ شروع ہو سکتی ہے جب اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس کے قدیم شہر میں ایک مرکزی فلسطینی راستے سے ایک متنازع مارچ کرے گا۔

جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ ہی غزہ میں اسرائیلی حملوں کی آوازیں گاڑیوں کے ہارنوں سے تبدیل ہو گئیں۔

غزہ کی گلیاں اور سڑکیں گذشتہ کئی روز سے سنسان تھیں۔ لوگوں نے جنگ بندی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فلسطینی پرچم لہرائے اور گاڑیوں سے فتح کے نشان دکھاتے ہوئے اپنی مسرت کا اظہار کیا۔

تازہ ترین تصادم منگل کو اس وقت شروع ہوا جب اسرائیلی فضائی حملوں میں اسلامی جہاد کے تین سینیئر کمانڈر جان سے چلے گئے تھے۔

 اسرائیل نے دعوی کیا تھا کہ یہ فضائی حملے گذشتہ ہفتے راکٹ فائر کے جواب میں کیے گئے تھے اور اس کے حملے اسلامی جہاد کے اہداف پر مرکوز تھے۔

لیکن غزہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کے گھروں کو بھی نشانہ بنایا گیا جو لڑائی میں شامل نہیں تھے۔

اسرائیل کے غزہ پر ابتدائی حملوں میں 10 عام شہری جان سے گئے تھے جن میں کم سن بچے اور خواتین بھی شامل تھی۔ ان اسرائیلی حملوں کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔

اس کے بعد ہونے والے کئی حملوں میں اسرائیل نے اسلامک جہاد کے کمانڈروں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا لیکن غزہ سے ہونے والے راکٹ فائر رکنے کے کوئی آثار نہیں دکھائی دیے۔ اسلامی جہاد نے اسے اپنی فتح قرار دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان حالیہ جھڑپوں کے دوران غزہ سے 1200 سے زائد راکٹ لانچ کیے گئے جن میں کچھ تل ابیب اور بیت المقدس تک بھی پہنچے تھے۔

پانچ روز پر محیط یہ جھڑپیں اسرائیل اور فلسطینی گروپس کے درمیان طویل عرصے سے جاری کشیدگی کی تازہ ترین کڑی تھی۔

اس سے قبل بھی اسرائیل اور حماس کے درمیان چار جنگیں ہو چکی ہیں جبکہ ان کے علاوہ چھوٹی چھوٹی جھڑپیں بھی ہوتی رہی ہیں۔

سنیچر کے معاہدے نے بار بار ہونے والی ان جھڑپوں کی بہت سی وجوہات کو حل نہیں کیا جس میں اسرائیل کی غزہ کی جاری ناکہ بندی اور مقبوضہ مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی پالیسیاں شامل ہیں۔

اسرائیل کی تاریخ میں اب تک کی سب سے زیادہ انتہا پسند حکومت کے دور میں مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

اے پی کے ایک جائزے کے مطابق رواں سال کے آغاز سے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں 111 فلسطینی جان سے جا چکے ہیں۔

اس دوران اسرائیلیوں پر فلسطینیوں کے حملوں میں 20 افراد مارے جا چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا