انڈین ٹرین حادثہ: بی جے پی عوام پر کب توجہ دے گی؟

انڈیا میں دنیا کا سب سے پرانا اور چوتھا بڑا ریلوے نیٹ ورک موجود ہے جس کی بنیاد تقریباً 150 برس قبل برطانوی حکومت نے ڈالی تھی۔

پانچ جون 2023 کو ایک مسافر انڈیا کی ایک ٹرین سے باہر دیکھ رہا ہے جو بالاسور کے حالیہ حادثے کے بعد دوبارہ سے مرمت کے بعد ٹھیک کیے گئے ٹریک سے گزر رہی ہے (اے ایف پی)

انڈیا میں حالیہ ریل حادثے کے بعد ایک اہم نکتہ اُٹھایا جا رہا ہے کہ موجودہ سرکار نے جتنی توجہ تیز رفتار ریل سروس متعارف کرانے پر مرکوز کی ہے کاش وہ توجہ پرانے ریل سسٹم کو ٹھیک کرانے پر دی ہوتی تو شاید اُڈیسہ میں چند روز پہلے دل دہلانے والا ریل حادثہ نہ ہوا ہوتا جس نے تقریباً 300 مسافروں کو زندہ نگل لیا۔

انڈیا میں دنیا کا سب سے پرانا اور چوتھا بڑا ریلوے نیٹ ورک موجود ہے جس کی بنیاد تقریباً 150 برس قبل برطانوی حکومت نے ڈالی تھی۔

یہ 64 ہزار کلو میٹر پر پھیلی ریلوے پٹری پر روزانہ ایک کروڑ 30 لاکھ مسافر سفر کرتے ہیں اور ڈیڑھ ارب ٹن سازوسامان کی رسائی ہوتی ہے۔

 مگر بیشتر ریلیں اور ریلوے سٹیشن اب بھی اُسی حالت میں ہیں جو اُس وقت کی حکومت نے قائم کر دیے تھے اور برصغیر کے بٹوارے کے بعد انڈیا کی آزاد حکومت کی تحویل میں آ گئے۔

وزیراعظم نریندر مودی نے حال ہی میں چند نئی تیز رفتار ٹرینوں کا افتتاح کیا، بعض ٹرینوں کے ڈبے بدل دیے۔ حکومت کہتی ہے کہ نئی ٹرینوں اور نئے ڈبوں کو جوڑنے اور ریلوں کو محفوظ بنانے پر چند برسوں میں 40 ارب روپے خرچ کیے گئے ہیں جو 2025 تک انڈیا کی معیشت کو پانچ ٹرلین روپے تک پہنچانے کا ایک حصہ ہے۔

آڈیٹر جنرل کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2017 سے حکومت کا ریلوں کا محفوظ نظام بنانے پر خرچہ صفر کے برابر ہے۔

بیشتر ٹرینیں اور ان کے ڈبے اُسی شکل میں موجود ہیں جس شکل میں برطانیہ بٹوارے کے وقت چھوڑ گیا تھا۔

بالاسور میں حالیہ ریل حادثے کے بعد ریلوے نظام کے انتہائی غیرمحفوظ نظام پر تشویش بڑھ گئی ہے اور خیال ہے کہ حکومت کو دی جانے والی بعض رپورٹوں کے باوجود کوئی احتیاطی تدابیر نظر نہیں آئیں بلکہ آئے روز جو حادثات ہوتے ہیں اُن کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے۔

نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کی ایک رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ 2021 میں 18 ہزار ریل حادثات میں 16 ہزار افراد کی جانیں چلی گئی ہیں البتہ گذشتہ دو برس میں کسی ریل حادثے میں اموات نہیں ہوئی ہیں۔

بالاسور کے علاقے میں تین ریلوں کا ٹکرانا غفلت کا ایک بڑا شاخسانہ ہے جس کے لیے مرکزی ایجنسی سی بی آئی کو تحقیقات کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ابھی تک نہ تو اس حادثے کے لیے کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور نہ کسی کو سزا ہی دی گئی۔

اپوزیشن جماعتوں نے ریلوے وزیر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، تاہم وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔

مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے بی جے پی کی حکومت پر نشانہ سادھا اور کہا کہ حادثے کو روکنے کے لیے آٹومیٹک ٹرین پروٹیکشن  نظام موجود نہیں تھا جو اُن کے دور میں متعارف کرایا گیا تھا جب وہ مرکزی وزیر ریلوے تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے الزام لگایا کہ مودی سرکار مسافروں کے تحفظ کے بجائے تیز رفتار ڈبے دکھا کر عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کسی حادثے یا اس کی جانب سے کی جانی والی مبینہ زیادتیوں کی ذمہ داری نہیں لیتی جس کی مثال ریل حادثے اور پہلوانوں کی احتجاجی مہم کی صورت میں سامنے ہے۔

پہلوانوں کی تنظیم کے سربراہ اور بی جے پی کے رہنما برج بھوشن پر عالمی تمغے جیتنے والی خواتین پہلوانوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزامات عائد ہیں اور ان کے خلاف ایک ماہ سے جاری احتجاجی مہم کے باوجود وہ نہ تو مستعفی ہوتے ہیں اور نہ بی جے پی نے اس پر کھل کر بیان دیا ہے۔

بقول دلی کے صحافی رویندر راٹھور ’بی جے پی کا یہ لینڈ مارک بن رہا ہے کہ الزامات یا اخلاقی ذمہ داری کے باوجود اس کے وزیر یا رہنما نہ تو مستعفی ہوتے ہیں نہ انہیں فارغ کیا جاتا ہے اور نہ بی جے پی بات کرتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں: ’وہ چاہے کسانوں کے مظاہرے کے دوران پانچ کسانوں کا قتل عام ہو یا پہلوانوں کی جانب سے اپنے میڈل گنگا میں بہانے کا الٹی میٹم ہو یا اُناو میں جنسی زیادتی کے بعد پورے گھر کو ٹرک سے اُڑانا ہو۔ بی جے پی سمجھتی ہے کہ وہ ناگزیر جماعت ہے اور اُسے یہ حق ہندو دھرم کے پرچار کے طور پر حاصل ہوا ہے۔‘

کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے امریکہ میں ریل حادثے پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے تو مودی جی 40 سال پیچھے جاکر الزام کانگریس پر ڈالتے ہیں کیوں کہ وہ ایسے ڈرائیور ہیں جو گاڑی کا آگے والا شیشہ دیکھنے کے بجائے پیچھے والا شیشہ دیکھتے ہیں۔

گو کہ لواحقین کے حق میں فوری ریلیف کا اعلان کردیا گیا لیکن کروڑوں عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ریلوے نظام کو محفوظ بنانا لازمی ہوگا جو تب ہی ممکن ہے جب مذہبی منافرت پھیلانے کے بجائے موجوہ حکومت عوام کے روزمرہ مسائل پر توجہ مرکوز کرے گی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ