’ کشمیر کو اپنے وجود کی جنگ لڑنا ہے بھلے پوری دنیا کیوں نہ مٹ جائے‘

کشمیر کو احساس ہے کہ انہیں اپنے وجود کی اب ایک بڑی لڑائی لڑنے کے لیے تیار ہونا ہوگا بھلے ہی یہ لڑائی مزید کئی نسلیں کیوں نہ کھا جائے اور بھلے ہی اس میں کشمیر کیا، پوری دنیا کیوں نہ مٹ جائے۔ نعیمہ احمد مہجور نے یہ مضمون کشمیر میں کرفیو کے دوران لکھا۔

سری نگر میں ایک شخص سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے دوران اپنے مکان کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہے جس کے شیشے جعمے کی جھڑپ میں ٹوٹ گئے۔ (روئٹرز)

میں اپنے پڑھنے والوں سے معذرت خواہ ہوں کہ وہ گذشتہ جمعے کو میرا کالم نہیں پڑھ سکے۔ اس کی وجہ میرا دیگر کشمیریوں کی طرح جموں وکشمیر میں محصور ہونا اور گھر کے باہر کی دنیا کے ساتھ ہمارے تمام رابطے بند ہونا تھے۔ دنیا کے ساتھ ہمارا یہ رابطہ چار اور پانچ اگست کی نصف شب اچانک منقطع کر دیا گیا کیونکہ اس روز کشمیر کی شناخت پر ایک کاری ظرب لگانا مقصود تھا۔

ایسا شاید میری زندگی میں پہلی مرتبہ ہو رہا ہے جب میرا قلم خون جگر سے یہ کالم لکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں آج نہ صرف اپنے والد کو آنسو بہا کر یاد کر رہی ہوں جو کہتے تھے کہ 1947 میں بھارت اور پاکستان نے اپنی آزادی تو حاصل کر لی لیکن جموں و کشمیر اس روز سے محکوم ہوگیا ہے۔ آج میں اپنے پردادا کی بات کو بھی یاد کر رہی ہوں جو انگریز سامراج کی جابریت پر اکثر کہا کرتے تھے کہ انہوں نے 1846 میں کشمیریوں کو چند سکوں کے عوض مہاراجہ گلاب سنگھ کو بیچ دیا۔ بلکہ میرے دادا کے پردادا سلطنت مغلیہ کو کوس کر بھری محفل میں کہا کرتے تھے کہ اکبر بادشاہ ہندوستان کا عظیم بادشاہ ہوسکتا ہے مگر وہ کشمیریوں کا غاصب حکمران تھا کہ جس نے 1580 میں دھوکہ دہی سے شہنشاہ یوسف شاہ چک کو دلی بلا کر قید کر لیا اور کشمیر پر غاصب ہوگیا۔

پانچ اگست 2019 کو بھارتی پارلیمان نے سیاسی دھوکہ دہی سے ایک بار پھر تاریخ کو دہرایا جب اس نے کشمیریوں کے وہ تمام حقوق چھین لیے جن کی اس نے سن سنتالیس میں جموں و کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے پر آئین ہند میں ضمانت دی تھی۔ ایک صدارتی حکم نامے سے کشمیر کو پھر ایک ایسا گہرا زخم دیا گیا کہ اس کو شاید صدیاں بھی نہیں بھر پائیں گی۔

بھارت میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے اپنے قیام کے فورا بعد ہی بر صغیر کو کھل کر یہ پیغام دیا تھا کہ وہ ہندوستان کو مکمل طور پر بدل دیں گی اور 700 سال تک حکمرانی کرنے والے مسلمان بادشاہوں کی ہر اس شے کو مٹا دیں گی جو انہیں اپنےمذہب، نظریے یا ثقافت کے مترادف محسوس ہو رہی ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چھ سال سے بی جے پی اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہی ہیں جس میں مسلم اکثریت والی ریاست جموں و کشمیر کو بھی تبدیل کرنا بھی شامل ہے۔

کشمیری رہنما شیخ عبداللہ نے جنہوں نے عوامی خواہشات کے برعکس بھارت کے ساتھ  مہاراجہ کے الحاق کی حامی بھری تھی اپنی سوانح حیات ’آتش چنار‘ میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے سن سنتالیس میں بھارت کے ساتھ الحاق اس بنیاد پر کیا کہ بھارت ایک سیکولر ریاست ہے جس میں مسلمانوں کی بڑی اکثریت موجود ہے مگر پھر دلی معاہدے کے فورا بعد جب ان پر بھارتی حکمرانوں کی نیت آشکار ہوئی اور وہ پھڑ پھڑا نے کی کوشش کرنے لگے تو نو اگست 1953 سے گیارہ برس تک پابند سلاسل رہنے کے باوجود بھارت کو ایک بار پھر گلے لگاتے ہیں اور کشمیری عوام کو جنبش کرنے کی اجازت تک نہیں دیتے۔

اس رہنما اور عوام کی ستم ظریفی دیکھیے کہ بھارتی حکمرانوں نے نہ انہیں گلے لگایا اور نہ ان کے عوام کو عزت سے زندہ رہنے کا موقعہ دے دیا بلکہ لاکھوں فوج کی مدد سے جموں و کشمیر پر مسلسل کنٹرول کرتے رہے۔ یہ کسے یقین تھا کہ اکیسویں صدی کی ڈیجٹل دنیا میں ایک کروڑ بیس لاکھ آبادی کو  آٹھ لاکھ فوجی بندوقوں کے سائے میں محصور رکھ کر  دنیا کی سات ارب آبادی کی آنکھوں کے سامنے  بھارتی پارلیمان میں ایک صدارتی فرمان سے کشمیریوں کی شناخت اور حقوق پر پھر ایک بار شب خوں مارا جائے گا۔

کشمیریوں پر سخت پہرے بٹھانا، جسمانی طور پر گھروں میں قید کرنا اور فون یا انٹرنیٹ کو سرے سے ناپید کرنا اور پھر تقریبا ایک ہزار کلو میٹر دور اس قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنا، یہ سب کچھ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک نے کیا اور محصور کشمیریوں کو اُف تک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

کل تک جموں و کشمیر کے جو پانچ سو رہنما بھارت کے ساتھ حکومت میں شامل بھارت کا ترنگا لہرا رہے تھے ان کو گرفتار کیا گیا اور معمولی ملزموں کی طرح ان کے گھروں کو قیدخانوں میں تبدیل کیا گیا۔

اب کس میں طاقت گفتار ہے اے خدا
جو تیرے تھے وہ بھی پابہ جولاں ہوگے

کشمیریوں کو اس بات پر حیرانی نہیں ہوئی کہ حکومت بھارت نے کس طرح ان کے حقوق پر پھر ایک بار شب خون مارا بلکہ حیرانی اس بات پر ہے کہ جن سیاست دانوں نے بھارت کا پرچم گذشتہ سات دہائیوں سے ہاتھوں میں لے رکھا تھا وہ پرچم لے کر حراست میں رکھے گئے اور جب شیخ عبداللہ کے صاحبزادے اور تین بار ریاست کے وزیر اعلی فاروق عبداللہ کو نیشنل چینل پر روتے ہوئے دکھایا گیا تو اس سے اگرچہ ان کے کارکنوں میں ان کے لیے ہمدردی کا جذبہ امڈ آیا وہیں آزادی پسند مسلم آبادی میں ان کے خلاف نفرت کا ایک طوفان امڈ پڑا اور موجودہ حالات کے لیے ان کو اور ان کے خاندان کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کو پورا یقین ہے کہ وہ طاقت کے بل پر کشمیریوں کو زیر کرنے میں کامیاب ہوگی اور وہ سب کچھ کر کے ریاست کی شبیہ بدل دے گی۔ شاید اس کا وقت ہی فیصلہ کرے گا کہ کشمیر میں حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا البتہ کشمیریوں کو یہ تک جاننے سے محروم رکھا گیا کہ کیا دینا کے ممالک خصوصا مسلمان مملکتوں نے اور خود کو جموں کشمیر کے تنازعے میں فریق کہلانے والے مملکت خداداد پاکستان نے کیا رویہ اختیار کیا۔

کشمیریوں کو بھارت کے سیاست دانوں سے کوئی گلہ نہیں اگر شکوہ ہے تو وہ ایک ارب بھارتیوں سے جن سے اس زیادتی پر وہ شدید ردعمل کی امید رکھتے تھے۔ کشمیریوں کی بےانتہا دل آزاری ہوئی ہے بلکہ ان عالمی اداروں پر حیرت ہو رہی ہے جو ایک مصلحت کے تحت کشمیریوں کو مرتے دیکھ رہے ہیں اور ان مسلمان مملکتوں پر افسوس بھی جو اس اقدام کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے رہے ہیں۔

کشمیر کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ انہیں اپنے وجود کی اب ایک بڑی لڑائی لڑنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا بھلے ہی یہ لڑائی مزید کئی نسلیں کیوں نہ کھا جائے اور بھلے ہی اس میں کشمیر کیا، پوری دنیا کیوں نہ مٹ جائے۔

کشمیر کو اپنے وجود، اپنی شناخت اور اپنے حقوق کی لمبی لڑائی شاید کئی صدیوں تک لڑنا ہوگی اور کشمیری قوم خود کو ایک بار پھر اس جدو وحید کے لیے تیار کرنے میں جٹ گئی ہے۔

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ  دیا تھا

سنا ہے قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر