پشاور ہائی کورٹ میں خواتین کے لیے علیحدہ سہولیات کیا ہیں؟

مسرت ہلالی پشاور ہائی کورٹ کی تاریخ میں پہلی خاتون چیف جسٹس ہیں تاہم بہت کم لوگوں کو ان کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کا علم ہوگا۔

پشاور ہائی کورٹ میں قائم مقام چیف جسٹس مسرت ہلالی کی جانب سے اقدامات میں خواتین کی سہولت اور بروقت رہنمائی کے لیے ایک علیحدہ ڈیسک کا افتتاح کیا گیا۔

اس سے قبل پشاور ہائی کورٹ میں خواتین  شہریوں کے لیے ایسی کوئی سہولت دستیاب نہیں تھی، جس کی وجہ سے وہ  بروقت اور درست رہنمائی سے محروم رہتے ہوئے تذبذب اور مشکل کا شکار رہتی تھیں۔

پاکستان میں جن لوگوں نے جسٹس مسرت ہلالی کا نام سنا ہے، ان کی اکثریت کو شاید یہ تو معلوم ہے کہ وہ پشاور ہائی کورٹ کی تاریخ میں پہلی خاتون چیف جسٹس ہیں اور حال ہی میں سپریم کورٹ کے لیے بھی ان کی تعیناتی کی سفارش ہوئی جس کی منظوری کے بعد وہ پاکستان کی تاریخ میں عدالت عظمی کی دوسری خاتون چیف جسٹس کا اعزاز حاصل کرسکیں گی۔

تاہم بہت کم لوگوں کو ان کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ میں اٹھائے جانے والے اقدامات کی تفصیلات کا علم ہوگا، جس کی وجہ سے نہ صرف خواتین وکلا اور عام خواتین بلکہ مردوں میں بھی ان کو پذیرائی مل رہی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے خواتین وکلا نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ کے ماضی اور حال کا جائزہ لیا جائے تو ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر صرف سہولیات کی بات کی جائے تو مردوں کی اکثریت پر مبنی اس عدالت میں نہ صرف عام خواتین بلکہ وکلا خواتین بھی کئی ضروری اور بنیادی سہولیات سے محروم تھیں۔

وکیل مہوش محب کاکاخیل نے بتایا کہ ماضی میں خواتین وکلا کے لیے بھی صاف ستھرے الگ بیت الخلا اور  نماز پڑھنے کی جگہ تک نہیں ہوتی تھی۔

‘مرد وکلا کے برعکس خواتین وکلا کا بار روم نہایت تنگ اور چھوٹا ہوتا تھا۔ دودھ پلانے والی اور بچوں والی ماؤں کے لیے کوئی سہولت نہیں تھی۔ کیسز کے سلسلے میں آنے والی خواتین کے لیے سہولیات کا کیا ذکر کریں، ان کے لیے تو سرے سے واش روم ہی نہیں تھا۔‘

کاکاخیل نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’ایسا پہلی مرتبہ مسرت ہلالی کی جداگانہ سوچ کی وجہ سے ممکن ہوا کہ انہوں نے خواتین کے بنیادی مسائل کو سمجھتے ہوئے عملی اقدامات اٹھائے۔

’اب تو کسی فائیوسٹار ہوٹل جیسے واش رومز ہیں۔ اور  ہمارا بار روم بھی مرد وکلا جتنا بڑا اور آرام دہ ہے۔ جس میں نماز پڑھنے کے لیے الگ جگہ ہے اور دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے ایک خاص قسم کی کرسی ہے، جس میں وہ پردے میں رہ کر باآسانی دودھ پلاتی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہی تمام سہولیات کیسز کے لیے آنے والی خواتین کے لیے قائم کیے گئے انتظار گاہ میں بھی موجود ہیں۔ بچوں کے لیے ڈے کیئر اور پلے ایریا کا قیام بھی مسرت ہلالی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔

مہوش کاکاخیل نے بتایا کہ جس عرصے میں یہ سہولیات نہیں تھیں، خواتین کو روزانہ کی بنیاد پر ایک اضافی اذیت سے گزرنا پڑتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ‘خواتین ڈیسک’ کا قیام بھی اتنا ہی ناگزیر تھا، اور یہی وجہ ہے کہ اس کو عین ہائی کورٹ کے داخلی گیٹ کے قریب بنایا گیا۔ جب کہ انتظار گاہ تک پہنچنے کے لیے بھی مختلف مقامات پر رہنمائی کے بورڈز آویزاں کیے گئے ہیں۔

انتظار گاہ خاصی بڑی ہے اور اس میں بیٹھنے کے لیے اتنی وافر جگہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جو کہ کاکاخیل کے مطابق، ماضی میں ایک دو کرسیوں پر مبنی جگہ ہوا کرتی تھی، جس میں ایک میلے پردے کے پیچھے خواتین گھنٹوں انتظار کرتی تھیں۔

دوسری خواتین وکلا آمنہ رفیق اور نازش مظفر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جو اقدامات چیف جسٹس مسرت ہلالی نے اٹھائے وہ دراصل ان کی شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے کرئیر کے آغاز ہی سے مختلف طبیعت کی مالک کے طور پر پہچانی جاتی رہی ہیں۔

’ان کی شخصیت کا خاصہ ہے کہ وہ ہمیشہ پراعتماد رہی ہیں۔ نہ صرف انہوں نے خواتین بلکہ مرد وکلا کی تربیت میں ایک بڑا کردار ادا کیا، ان کی رہنمائی کی اور خاص طور پر جونیئیر وکلا کو خود اعتمادی سکھائی۔ وہ ہمارے سامنے ایک مثال ہیں، جس کی ہم پیروی کررہے ہیں۔’

خواتین وکلا نے کہا کہ مسرت ہلالی کی وجہ سے ان میں جو خود اعتمادی آئی ہے اور ’اب جس طرح ان کی پشاور ہائی کورٹ میں سنی جاتی ہے، ایسا پہلے کبھی نہیں تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ امکان ہے کہ ان کی بطور سپریم کورٹ جج جلد ہی تعیناتی ہوجائے گی، اور وہ پشاور ہائی کورٹ سے چلی جائیں گی، تاہم ان کے بنائے ہوئے قوانین اور اٹھائے گئے بے مثال اقدامات کے لیے خیبر پختونخوا ان کا ہمیشہ مشکور رہے گا۔

مسرت ہلالی نے 2022 میں پاکستان سیٹیزن شپ ایکٹ 1951 کی سیکشن 10 میں پاکستانی خواتین کو غیر ملکی شہریوں سے شادی کی صورت میں ان کے شوہر کو بھی پاکستانی شہریت کا حق دیا۔ اس سے قبل یہ حق صرف پاکستانی مردوں کو حاصل تھا۔

وکلا کے مطابق، مسرت ہلالی کے اس فیصلے نے فیملی سسٹم  اور خواتین کے ساتھ قانون میں ہونے والے ’غیر مصنفانہ سلوک’ سے بچایا۔

اس فیصلے کے بعد کئی خواتین جن کے شوہر ایران، افغانستان، آسٹیریلیا، کینیڈا، فلسطین اور دوسرے ممالک میں الگ زندگی گزارنے پر مجبور تھے، ایک ہوئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین