سیاسی جماعت سے منسلک کسی شخص کو نگران وزیراعظم نہیں بننا چاہیے: خواجہ آصف

نگران وزیراعظم کے حوالے سے مختلف ناموں پہ قیاس آرایاں جاری ہیں اور گذشتہ دو روز سے عہدے کے لیے اسحاق ڈار کا نام لیا جا رہا ہے۔

مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعت سے منسلک کسی شخص کو نگران وزیراعظم نہیں بننا چاہیے۔

نگران وزیراعظم کے حوالے سے مختلف ناموں پہ قیاس آرایاں جاری ہیں اور گذشتہ دو روز سے عہدے کے لیے اسحاق ڈار کا نام لیا جا رہا ہے۔

گزشتہ روز اسحاق ڈار نے ٹی وی پروگراموں میں خود بھی نام زیر غور ہونے کی تردید نہیں کی تھی۔

انڈپینڈنٹ اردو نے وزیر دفاع خواجہ آصف سےانٹرویو میں اسی حوالے سے سوال کیا تو انہوں کہا کہ اسحاق ڈار کا شمار قائدین کے قریب ترین لوگوں میں ہوتا ہے، اگر (اسحاق ڈار کی) کوئی خواہش موجود بھی ہے تو میرا اپنا خیال ہے کہ اس سے سارے عمل کی شفافیت پر سوال اٹھے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ کوئی بھی شخص جو مسلم ن سے جڑا ہو وہ کسی کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا۔ دیگر سیاسی جماعتیں اور عوام بھی ان پر اعتراض کریں گی اور قانون بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ سیاسی جماعت سے واضح وابستگی کے ساتھ کسی بھی شخص کو نگران وزیراعظم بنایا جائے

خواجہ آصف کے مطابق اس سے عام انتخابات کے عمل کی غیر جانبداری پر بھی سوال اٹھیں گے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ یہ قیاس آرائیاں ہی ہیں اس معاملے پر ابھی قدم نہیں اٹھایا گیا اور نہ ہی کوئی فیصلہ کیا گیا ہے۔

اسحاق ڈار نے خود تردید نہیں کی ان کا نام زیر غور نہیں؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نگران سیٹ اپ میں لیڈر شپ کے قریب لوگوں کو نہیں ہونا چاہیے۔ 

نگران وزیراعظم کے لیے بہترین انتخاب کیا ہو سکتا ہے، کوئی جج یا بیورکریٹ؟

اس سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ ایک ریٹائرڈ جج کو بھی ماضی میں نگران وزیراعظم تعینات کیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک شخص کو امریکہ سے لائے تھے نگران سیٹ اپ کے لیے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ایسا سیاست دان ہو جس کی اپنی کوئی ذاتی پسند نہ ہو اور کسی ایک سیاسی جماعت کے لیے ہمدردی نہ رکھتا ہو تو ایسا شخص بہترین انتخاب ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ جج اور بیوروکریٹ اپنا کیرئیر گزار چکے ہوتے ہیں اور ان کی اپنی سیاسی پسند ناپسند ضرور ہوتی ہے۔ 

نگران وزیراعظم کا کب تک فیصلہ ہو جائے گا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ابھی حکومت جانے کے پندرہ دن باقی ہے انہی دنوں میں فیصلہ بھی ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت مقررہ مدت سے کچھ دن پہلے تحلیل ہو گی۔ 

نواز شریف کب واپس آ رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کی موجودہ سیاست میں ترازو کے پلڑے ابھی برابر نہیں ہوئے، جب برابر ہوں گے نواز شریف آ جائیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست