مردان: علما نے جلسے میں توہین رسالت پر قتل ’غلط‘ قرار دے دیا

مردان میں رواں سال چھ مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے ایک مظاہرے میں مقامی عالم دین حافظ نگارعالم کو توہین رسالت کے الزام میں قتل کیا گیا تھا۔

مردان میں مقامی علما نے قتل کیے جانے والے مولوی نگار عالم  پر توہین رسالت کا الزام غلط قرار دے دیا (محمد ایوب)

مردان میں مقامی علما نے توہین رسالت کے الزام میں قتل کیے جانے والے مولوی نگار عالم  پر ’گستاخ رسول‘ کا الزام غلط قرار دے دیا جبکہ واقعے میں ملوث ملزمان نے جرگے کے ذریعے دیت میں 35 لاکھ روپے مقتول کے گھروالوں کو دے کر راضی نامہ کر لیا۔

مقتول نگار عالم کے خاندان والوں نے تصدیق کرتے ہوئے کہا: ’الزام لگانے سے نہ صرف مولوی نگار عالم کو بیدردی سے قتل کیا گیا جبکہ پورے خاندان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا لیکن علما کے فیصلہ آنے کے بعد ہم پر لگائی گئی تہمت(الزام) کا خاتمہ ہوگیا۔‘

ضلع مردان کے علاقہ ساولڈھیر میں رواں سال چھ مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے ایک احتجاجی مظاہرہ میں اختتامی دعا کے وقت مقامی عالم دین حافظ نگار عالم کے منہ سے کچھ الفاظ ادا ہوئے جس پر ان کو مبینہ طور پر گستاخ رسول ٹھہرایا گیا اور مشتعل ہجوم نے سٹیج سے اتار کر تشدد کرکے ساولڈھیر بازار میں بے دردی سے قتل کردیا تھا جبکہ بعد ازاں نہ ان کی نماز جنازہ اور نہ علاقے میں تدفین کی اجازت دی گئی تھی اور مقتول کی لاش صوبہ پنجاب میں رشتہ داروں کے پاس لے جا کر دفن کی گئی تھی۔

واقعے میں ملوث 104 افراد کے خلاف ریاست کے مدعیت میں مقدمات درج کیے گئے تھے جس میں قتل اور انسداد دہشت گردی کے دفعات شامل ہیں۔

اس حوالے سے مقامی علما کی سربراہ مولانا محمد ادریس حقانی نے انڈپینڈنٹ اردوکو بتایا کہ ساولڈھیر کے مقامی جرگے کے مشران نے علما سے درخواست کی اس حوالے سے ان کی رہنمائی کی جائے۔

انہوں نے کہا: ’مقامی علما نے بیٹھ کر تحقیق کی اور مقتول مولوی حافظ نگار عالم کی سٹیج پر ادا کیے گئے الفاط کو ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں سنا جس کے بعد علما نے متفقہ فیصلہ جاری کیا کہ نگار عالم پر لگائے گئے توہین رسالت کےالزامات غلط ہیں اوران کے منہ سے ادا کیے گئے الفاظ گستاخیِ رسول کے زمرے میں نہیں آتے۔‘

مولانا محمد ادریس نے کہا کہ فیصلے کے وقت مقامی جرگے کے مشران اور گاؤں کے چار سو کے قریب لوگ ساولڈھیر کی جامع مسجد میں موجود تھے۔

’میں یہ فیصلہ سنا دیا کہ مقتول مولوی حافظ نگار عالم پر جو الزامات لگائے گئے تھے وہ سراسر غلط تھے ۔اور یہ بھی کہا کہ انہوں نے جو الفاظ ادا کیے تھے وہ غیر شرعی تھے لیکن وہ گستاخ رسول نہیں تھے اوروہ قتل کے حق دار نہیں تھے۔‘

انہوں نے کہا: ’ہم نے عوام کو تلقین کی اگر کسی نے غیر شرعی الفاظ ادا کیے تو اپنے جذبات قابو میں رکھے اور ملوث شخص کو قانون کے حوالے کیا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقامی جرگے کے سربراہ ظہور داد نے بتایا: ’مقتول نگار عالم کے خاندان کا یہ مطالبہ تھا کہ ان کے بھائی ایک دیندار شخص تھے اور انہوں نے کوئی گستاخی نہیں کی تھی اوران پر لگائے گئے الزام کے حوالے سے علما کی ذریعے تحقیقات کی جائیں۔‘

انہوں نے کہا کہ مقامی پانچ رکنی جرگے میں ظہور داد، گل مست خان، محمد طفیل استاد، وکیل خان اور یاسر خان شامل تھے جن کی درخواست پر مقامی علما نے تحقیق کے بعد متفقہ طور پر فیصلہ جاری کیا۔

جرگہ سربراہ ظہور داد نے کہا کہ واقعے میں جے یو آئی کے سابق ڈسٹرکٹ کونسلر مولانا عرفان اللہ سمیت نامزد 104 ملزمان شامل تھے۔

انہوں نے کہا: ’جرگہ ممبران نے ملزمان سے 35 لاکھ روپے مقتول کے بچوں کی کفالت کے لیے دیت میں دیے اور مقامی جامع مسجد میں علما کی سربراہی میں نامزد ملزمان اور مقتول کے خاندان کا آپس میں راضی نامہ ہوگیا۔

توہین رسالت کے الزام میں قتل کیے گئےمولوی حافظ نگارعالم کے خاندان والوں سے رابطہ کرنے پر ان کے بھائی علی گوہر نے بتایا: ’ہمارا بھائی دین دارشخص تھا اور ایک عالم تھا ہمیں یقین تھا کہ وہ نبی پاک کی شان میں گستاخی نہیں کرسکتا۔‘

انہوں نے کہا کہ مقامی علما کی جانب سے فیصلے نے ثابت کیا کہ انہوں نے کوئی گستاخی نہیں کی تھی اوران کا قتل ناحق ہوا تھا۔

علی گوہر نے بتایا: ’مقامی جرگے کی درخواست پر اور علما کا فیصلہ آنے کے بعد ہمارے خاندان نے ملزمان کو معاف کر کے راضی نامہ کردیا۔‘

انہوں نے کہا: ’جرگے کی جانب سے ملزمان سے لیے گئے دیت کے 35 لاکھ روپے نگار عالم کے کم سن پانچ بچوں کے لیے رکھ دیے۔‘

مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے نگارعالم قتل کیس کے تفتیش کرنے والے پولیس انسپکٹر انور خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’مختلف ویڈیوز اور شواہد ملنے پر پولیس تھانہ جبر نے 104 افراد کو پولیس کی مدعیت میں ایف آئی آر میں نامزد کرچکے ہیں جس کا ٹرائل انسداد دہشت گردی عدالت مردان میں جاری ہے۔‘

پولیس آفیسر نے کہا کہ ’نامزد ملزمان میں 60 کے قریب کا عدالت سے قبل از گرفتاری ضمانت منظور ہو گئی ہے جبکہ چھ ملزمان کی ضمانت مسترد ہوئی ہے اور وہ جوڈیشل ریمانڈ پر مردان جیل میں بند ہیں اور دیگر ملزموں کا عدالت میں قبل از گرفتاری ضمانت کی درخواست پر ٹرائل جاری ہیں۔

اس راضی نامہ کے حوالے سے ڈسٹرکٹ کورٹس مردان کے وکیل اکبر ہوتی نے بتایا: ’جن مقدمات میں ریاست کی جان سے قتل کی دفعات 302 اور اس کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے مقدمہ سات (اے ٹی اے) بھی لگائی گئی ہو تو اس میں راضی کرنے سے ملزمان کو معافی نہیں ملتی۔‘

انہوں نے کہا کہ اس کیس میں ابھی ٹرائل شروع ہوا ہے اور آگے جا کر عدالت ہی بہتر فیصلہ کرے گی کہ فریقین کے آپس میں راضی نامے سے ملزمان کو کتنا فائدہ پہنچتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان