خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں ہفتے کو پولیس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے جلسے میں ایک کارکن کو مبینہ طور پر توہین رسالت کے الزام میں دیگر کارکنان نے قتل کر دیا۔
مردان کی ضلعی پولیس کے سربراہ نجیب الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ واقعہ شام کے وقت پیش آیا جب پی ٹی آئی کی جانب سے مہنگائی اور دیگر مسائل کے خلاف مردان کے علاقے ساولڈھیر میں جلسہ ہو رہا تھا۔
انہوں نے بتایا، ’مقتول شخص آج ہی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے اور جلسے کے دوران تقریر کے بعد اختتامیہ دعا کرتے ہوئے کچھ ایسے الفاظ استعمال کیے جو ہجوم کے مطابق گستاخانہ تھے۔‘
نجیب الرحمٰن کے مطابق اس کے بعد مقتول کو کارکنان کی جانب سے گھیر لیا گیا اور ایک تنگ گلی میں مار کر قتل کر دیا گیا۔
انہوں نے بتایا، ’قتل کرنے کے بعد کارکنان مقتول کے جسم کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن پولیس کی جانب سے لاش کو تحویل میں لیا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ واقعے کے دوران پولیس نے کوشش کے کہ مقتول شخص کو بچایا جا سکے لیکن ہجوم کے آگے وہ کچھ نہ کرسکے۔
پولیس اہلکار نے مزید بتایا کہ اب بھی علاقے میں کشیدگی برقرار ہے اور پولیس نے قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے جبکہ مقتول کے لواحقین سے بھی اس حوالے سے ملاقات کریں گے۔
مردان پولیس کے ایک اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہجوم میں 400 سے 500 تک لوگ شامل تھے اور جلسے کے دوران مقتول کو گیرے میں لے کر اس کو مار پیٹ کر قتل کیا۔
واقعے کی ایک ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہلکار اور ہجوم میں موجود کچھ لوگ مقتول کو کو نہ مارنے کے لیے آوازیں لگا رہے ہیں۔
نگران وزیر اعلیٰ اعظم خان نے اس واقعے کو ناخوشگوار اور افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جلسوں کو سیاسی بیانات تک ہی محدود رکھنا چاہیے۔
انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ قانون کو ہاتھ میں نہ لیں اور ایسے معاملات میں قانون کو اپنا راستہ اپنانے دیں۔
بیان میں وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ واقعے کے تناظر میں علمائے کرام کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
اس سے پہلے 2017 میں عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں مشال خان نامی طالب علم کو ہجوم نے توہین رسالت کا الزام لگا کر قتل کردیا تھا جس میں بعض ملزمان کو سزا بھی ہوئی تھی۔