بالآخر ’زندگی تماشا‘ ریلیز ہو گئی

خدا جانے یہ فلم پاکستانی سینیما میں ریلیز ہوتی تو ہمارا معاشرہ اس پر کیا کیا اعتراض جڑتا اور اس فلم میں شامل لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا۔

اس فلم کا ہر منظر اور ہر مکالمہ ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت پر سنجیدہ سوالات اٹھاتا ہے (کھوسٹ فلمز)

ہدایت کار اور مصنف سرمد کھوسٹ کی فلم زندگی تماشا تین سال کے انتظار کے بعد اپنے شائقین کے پاس پہنچ چکی ہے۔

سرمد نے پچھلے جمعے ’زندگی تماشا‘ یوٹیوب پر ریلیز کر دی تھی۔ انہوں نے فلم کی ریلیز سے پہلے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ اب عوام خود ہی اس فلم کے بارے میں فیصلہ کریں۔

زندگی تماشا لاہور میں رہنے والے ایک عام آدمی راحت خواجہ کی کہانی ہے جو ایک باپ بھی ہے، شوہر بھی ہے، کاروبار بھی کرتا ہے، اور موسیقی اور رقص کا شوق بھی رکھتا ہے۔

فلم کا تنازع راحت خواجہ کی نعت خوانی سے ہے۔ راحت ہر سال عید میلاد النبی کے موقعے پر اپنے علاقے میں ہونے والی محفل میں نعت پڑھتے ہیں۔

ان کی محبت ان کی نعت کو دوسروں سے ممتاز بناتی ہے۔ ایک نجی محفل میں فرمائش پر کیے جانے والے ڈانس کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہونے کے بعد راحت کو سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو انہیں اندر سے توڑ کر رکھ دیتا ہے۔

وہ اس بائیکاٹ کے دوران مختلف جذبات سے گزرتے ہیں جنہیں راحت خواجہ کا کردار ادا کرنے والے عارف حسن نے بہت خوبصورتی سے دیکھنے والوں کو دکھائے ہیں۔

زندگی تماشا کا موضوع ہمارے معاشرے میں بڑھتا ہوا عدم برداشت ہے۔ اس فلم کا ہر منظر اور ہر مکالمہ ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت پر سنجیدہ سوالات اٹھاتا ہے۔

ہم ان سوالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، غالباً اسی لیے اس فلم کی مخالفت کر رہے ہیں۔

سرمد کھوسٹ نے سب سے پہلے اس فلم کو جنوری 2020 میں ریلیز کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن جب ستمبر 2019 میں اس فلم کا ٹریلر جاری کیا گیا تو مذہبی حلقوں کی جانب سے اس پر شدید اعتراض سامنے آئے تھے۔

برداشت اور تحمل کا صبر دینے والے دین کے پیروکاروں نے سرمد کھوسٹ کو طرح طرح کی دھمکیاں دی تھیں۔ نتیجتاً سنسر بورڈ کے اجازت دینے کے باوجود یہ فلم سینیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش نہیں کی جا سکی تھی۔

اس کے بعد اس فلم کو مارچ 2022 میں ریلیز کرنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن یہ فلم تب بھی ریلیز نہ ہو سکی تھی۔ وجہ وہی مخالفت اور دھمکیاں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس دوران یہ فلم کئی عالمی فلمی میلوں میں پیش کی گئی۔ اس فلم نے ایشین فلم فیسٹیول اور بوسان فلم فیسٹیول کے علاوہ چھ دیگر فلم فیسٹولز میں بہترین فلم کے ایوارڈ اپنے نام کیے تھے۔ تاہم ان میں سے ایک بھی ایوارڈ اس فلم کو پاکستانی سنیما گھروں میں نمائش کے قابل نہیں بنا سکا۔

فلم دیکھنے کے بعد پتہ لگتا ہے کہ ہمارے چھوٹے سے دماغوں نے فلم کے ٹریلر سے اس کا جو خاکہ بنایا تھا، یہ فلم اس خاکے سے تھوڑی دور کھڑی ہوئی ہے۔

اس فلم کے ہر منظر اور مکالمے میں ایک توازن موجود ہے جسے ہمارا ذہن قبول ہی نہیں کر سکتا۔ فلم کے اکثر سین ایسے ہیں جن پر انسان عش عش کر اٹھتا ہے۔

پاکستان میں پچھلے کچھ سالوں سے مذہب کے نام پر جو سیاست چلائی جا رہی ہے، اس فلم کے کئی سین اور ڈائیلاگ اس سیاست کو کمال سے بے نقاب کر رہے ہیں۔

سمجھنے والوں کے لیے زندگی تماشا میں بہت کچھ ہے۔ جو سمجھ کر بھی نہ سمجھنا چاہیں وہ فلم میں سے کچھ نہ کچھ نکال کر تماشا بنا سکتے ہیں۔ وہی تماشا ہم نے پچھلے تین سالوں میں دیکھا۔

اس فلم کے ایک سین میں فلم کا مرکزی کردار راحت عید میلاد النبی پر ختم دلانے کے لیے حلوہ تیار کر رہا ہوتا ہے۔ وہ اس حلوے میں زعفران ضرور ڈالتا ہے۔ اس دن اس کی بیوی اسے کہتی ہے کہ ’جب زعفران اتنا مہنگا ہے تو وہ اس کے بغیر حلوہ کیوں نہیں بناتے؟‘

اس پر راحت کہتا ہے کہ ’سال میں ایک ہی بار تو بڑا دن آتا ہے۔‘

میرے خیال میں بس یہی ڈائیلاگ اس فلم کی جان ہے۔ یہ سادہ سا ڈائیلاگ پاکستان میں مذہب کے نام پر سالوں سے ہونے والی سیاست پر پانی پھیر رہاہے۔

کاش یہ فلم کسی مووی سٹریم ویب سائٹ پر ریلیز ہوتی۔ کچھ دن پہلے فلم میں راحت خواجہ کا کردار ادا کرنے والے اداکار عارف حسن ایک ٹویٹر سپیس میں موجود تھے۔

انہوں نے بتایا کہ نیٹ فلیکس سے اس مووی کی ریلیز کے حوالے سے بات ہوئی تھی لیکن وہ بہت زیادہ پیسے مانگ رہے تھے جس کی وجہ سے بات آگے نہیں بڑھ سکی۔

فلم دیکھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اس پر لگنے والی پابندی کسی حد تک جائز تھی۔

گرچہ فلم کی ہر چیز میں ایک بیلنس موجود ہے لیکن ہمارا معاشرہ اس بیلنس کو بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

خداجانے یہ فلم پاکستانی سینیما میں ریلیز ہوتی تو ہمارا معاشرہ اس پر کیا کیا اعتراض جڑتا اور اس فلم میں شامل لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا۔

گرچہ انہوں نے جو کام کیا ہے اس کی شدید ضرورت تھی لیکن ہمارا معاشرہ ابھی ایسے موضوعات کے لیے تیار نہیں ہے کہ کئی لوگوں کا ذاتی مفاد ایسے موضوعات کو اس معاشرے میں عام ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔

ہم ہر کسی سے نہیں لڑ سکتے بس ایسے لوگوں کے لیے دعا کر سکتے ہیں جو اس شدت پسند معاشرے میں بھی اپنے فن کے ذریعے حق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔

اللہ انہیں سلامت رکھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ