پلوامہ میں بھارتی لاک ڈاؤن کا مقابلہ ’سول کرفیو‘ سے

بھارتی حکومت کی عائد پابندیوں میں نرمی کے باوجود پلوامہ میں خود لوگوں کی 18 دنوں سے غیر معینہ مدت کی ہڑتال جاری ہے۔

پلوامہ میں دکانیں اور کاروباری مراکز بند جبکہ سڑکوں سے ٹریفک غائب ہے (اے ایف پی)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے جنوبی ضلعے پلوامہ میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے غیر معینہ مدت کی ہڑتال جاری ہے۔

بھارتی حکومت کی جانب سے عائد پابندیوں میں نرمی کے باوجود 18ویں روز بھی پلوامہ میں دکانیں اور کاروباری مراکز بند جبکہ سڑکوں سے ٹریفک بھی غائب ہے۔

پلوامہ کے گاؤں نیوا کے رہائشی عبدالرشید کہتے ہیں:’ آرٹیکل 370 ہماری شناخت ہے۔ اس کو ختم کر دیا ہے، جس پر ہم اُس وقت تک شٹ ڈاؤن جاری رکھیں گے جب تک منسوخی کا حکم واپس نہیں لیا جاتا۔ ہم امن سے رہ رہے تھے لیکن بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے اپنے تمام وعدے توڑ ڈالے ہیں۔ یہ ہماری شناخت اور بھارت اور کشمیر کے درمیان ایک تعلق تھا جو اب نہیں رہا۔ ہمارا بھارت سے تعلق بھی ختم ہو چکا ہے۔‘

کئی دیہی علاقوں میں نوجوانوں نے سڑکوں کو بجلی کے ٹوٹے کھمبوں اور تازہ کٹے درختوں کے تنوں سے بند کر دیا ۔ صبح اور شام کے اوقات میں نوجوان اکثر بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں مصروف رہتے ہیں۔

احتجاج کرنے والے کچھ نوجوانوں کے مطابق وہ بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ ہی نہیں رہنا چاہتے بلکہ ہر قیمت پرآزادی چاہتے ہیں۔

پلوامہ کے رہائشی عمران احمد کہتے ہیں: ’ہم بھارت اور پاکستان سے آزاد رہنا چاہتے ہیں‘۔  ان کے مطابق گذشتہ کئی دہائیوں سے کشمیر کے شہری حکومتی فوج کے مظالم سہہ رہے ہیں۔ ’ ہم آخری سانس تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ہم بھارتی افواج کو اپنے علاقے سے نکال کر دم لیں گے۔‘

جموں اور کشمیر 1947 میں بھارت کی آزادی سے پہلے ایک شاہی ریاست تھی۔ جس کے مہاراجہ ہری سنگھ نے خصوصی آئینی حیثیت اور ایک الگ جھنڈے کی شرائط پر یونین آف انڈیا سے اس کا الحاق کیا تھا۔پانچ اگست کو وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کرتے ہوئے جموں اور کشمیر کو یونین کے زیر انتظام دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس فیصلے کا اعلان کرنے سے پہلے دہلی حکومت نے لوگوں کی نقل و حرکت اور رابطوں کے ذرائع پر سخت پابندیاں عائد کر دیں تھیں۔

عبدالرشید کہتے ہیں:’ ہم اپنے رشتہ داروں سے رابطہ نہیں کر پا رہے۔ حکومت پولیس سٹیشن اور سرکاری عمارتوں میں فون کی سہولت کے حوالے سے جھوٹ بول رہی ہے۔ پورے ضلعے میں ایسی کوئی سہولت نہیں۔ہمارے بچے کشمیر سے باہر پڑھ رہے ہیں اور کچھ رشتہ دار حج کرنے کے لیے گئے ہیں، ہمارا ان سے رابطہ نہیں ہو پا رہا۔ پڑوس میں موجود ایک خاندان اس وجہ سے بہت پریشانی کا شکار ہے کیونکہ وہ حج کے لیے جانے والے اپنے رشتہ داروں سے رابطہ نہیں کر سکتے۔‘

پلوامہ کے ایک اور مقامی فرد کا کہنا تھا کہ مودی حکومت نے کشمیر میں ایک غلط فیصلہ کیا ہےجس کی وجہ سے لوگ ’سول کرفیو‘ کے ذریعے اس فیصلے پر اپنا احتجاج ریکاڑد کروا رہے ہیں۔

پلوامہ کے ایک ریٹائرڈ استاد علی محمد وانی کا کہنا ہے:’ حکومت کی سوچ نے کشمیر کو بھارت کے مدار سے الگ کر دیا ہے۔ لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ مودی حکومت کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنا چاہتی ہے۔ کشمیری اپنی آخری سانس تک ایسا نہیں ہونے دیں گے۔‘

عسکریت پسندی کا گڑھ سمجھے جانے والے پلوامہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جب تک یہ حکم واپس نہیں لیا جاتا وہ مہینوں تک ’اپنی شناخت کے اس معاملے‘ پر ہڑتال کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ لوگوں میں فون لائنز بند ہونے کی وجہ سے بھی شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ لوگوں کے مطابق بھارت حکومت نے خصوصی حیثیت کے بدلے دو قومی نظریے کو جھٹلاتے ہوئے پاکستان کے بجائے بھارت میں شمولیت کے فیصلے پر کشمیریوں کو دھوکہ دیا۔

حکومتی فیصلے کو تین ہفتے ہونے کے باوجود کشمیر میں ٹیلی فون لائنز، کیبل اور انٹرنیٹ پر پابندی شہریوں کی بے چینی میں اضافہ کر رہی ہے۔ شٹ ڈاؤن اور رابطوں پر پابندی کے دوران بیمار افراد شدید مشکلات کا شکار ہیں۔

ہسپتال ملازمین کے مطابق انہیں بھی ناکافی سفری سہولیات کے باعث ایمرجنسی ڈیوٹی کے لیے پہنچنے میں تکلیف کا سامنا رہتا ہے۔

پلوامہ کے علاقے نیوا کے ہسپتال انچارج ڈاکٹر ظہور احمد زرگر کہتے ہیں:’ ہمارا ہسپتال پلوامہ کے دیہی علاقوں کا واحد سہارا ہے لیکن ہم مشکل حالات کے دوران اپنے ملازمین سے رابطہ نہیں کر پاتے کیونکہ فون لائنز بندش کا شکار ہیں۔‘

 ان کے مطابق وہ ادویات اور طبی سامان کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔’ ہم روزانہ سڑک حادثات کے کئی زخمیوں کا علاج کرتے ہیں لیکن اس صورتحال کی وجہ سے ہسپتال میں زخم دھونے والی دوا کی قلت ہو چکی ہے۔‘

حکومتی ترجمان روہت کنسال کے مطابق حالات کی بہتری کے بعد رابطے بتدریج بحال کر دیے جائیں گے۔’ہم روزانہ کی بنیاد پر ملاقات کر کے پابندیوں کے حوالے سے اہم فیصلے کرتے ہیں۔‘

حکومت وادیِ کشمیر میں پرائمری اور مڈل سکول کھول چکی ہے لیکن ان میں حاضری بہت کم ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا