صدر نے سیکریٹری کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کر دیں

ایوانِ صدر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق صدر نے اپنے پرنسپل سیکریٹری کو تبدیل کر کے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کا حکم دیا ہے۔

صدر عارف علوی نے اتوار 20 اگست 2023 کو آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 پر دستخط کرنے کی تردید کی تھی(فائل فوٹو/ اے ایف پی)

ایوانِ صدر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق صدر نے اپنے پرنسپل سیکریٹری کو تبدیل کر کے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کا حکم دیا ہے۔

ایکس پر جاری کردہ ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’کل کے واضح بیان کے بعد ایوانِ صدر نے وزیرِاعظم کے پرنسپل سیکریٹری کو لکھا ہے کہ صدر کے سیکریٹری مسٹر وقار احمد کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں ہے اور انہیں فوری طور پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو بھجوا دیا گیا ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کی 22 گریڈ کی افسر حمیرا احمد کو بطور صدر مملکت کی سیکریٹری تعینات کیا جائے۔‘

ایسا صدر پاکستان کے اس بیان کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے جس میں صدر عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 پر دستخط کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے عملے نے ان کے حکم کے خلاف کام کیا۔

صدر پاکستان نے اتوار 20 اگست کو ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں لکھا تھا کہ ’میں اللّٰہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’میں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کر دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے۔ میں نے ان سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ واپس جا چکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ جا چکے ہیں، تاہم مجھے آج پتہ چلا کہ میرا عملہ  میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدر پاکستان کے اس بیان پر جو انہوں نے اپنے ذاتی سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری کیا تھا بعض حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ دیگر نے اس پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

تاہم پاکستان کی وزارت قانون اور انصاف کا کہنا تھا کہ ’صدر نے دانستہ طور پر بل کی منظوری میں تاخیر کی۔‘

وزارت قانون کا کہنا تھا کہ ’یہ تشویشناک امر ہے کہ صدر نے اپنے ہی عملے کو مورد الزام ٹھہرانے کا انتخاب کیا۔ صدر مملکت کو اپنے عمل کی ذمہ داری خود لینی چاہیے۔‘

دوسری جانب صدر کے بیان پر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر پاکستان عارف علوی نے ’جلد بازی‘ میں ’غیر سنجیدہ حرکت‘ کر دی ہے جس کا انہیں اندازہ نہیں۔

اسی طرح سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے پارٹی اکاؤنٹ سے ایک پوسٹ میں صدر کو اپنی حمایت کا یقین دلایا گیا ہے۔

جس کے بعد سے صدر پاکستان کی حمایت میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ٹرینڈ بھی چل رہا ہے۔

سینیئر صحافی کامران خان نے ایک پوسٹ میں چند سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی پوسٹ کے تقریباً 24 گھنٹے بعد وہ ایک ’تنگ گلی‘ میں پھنسے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ’اس معاملے میں ان کا طرز عمل شفاف نہیں تھا۔ صدر عارف علوی کے طرز عمل سے متعلق اہم سوالات کے جوابات ابھی تک نہیں ملے۔ مختصر یہ کہ صدر عارف علوی نے دو کشتیوں میں چلنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان