صدر پاکستان کا بیان: اب قانونی آپشنز کیا رہ گئے ہیں؟

وزارت قانون کے مطابق ’آرٹیکل 75 کی رو سے جب کوئی بل منظوری کے لیے بھیجا جاتا ہے تو صدر کے پاس دو اختیارات ہوتے ہیں، بل کی منظوری یا مخصوص تحفظات کے ساتھ بل پارلیمنٹ کو واپس بھیجنا، آرٹیکل 75 کوئی تیسرا آپشن فراہم نہیں کرتا۔

صدر عارف علوی کے اتوار 20 اگست کے بیان پر وزارت قانون نے تشویش کا اظہار کیا ہے (فائل فوٹو/ صدر پاکستان/ فیس بک)

صدر پاکستان عارف علوی کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ پر دستخط سے متعلق بیان پر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ’جلد بازی‘ میں ’غیر سنجیدہ حرکت‘ کر دی ہے جس کا انہیں اندازہ نہیں۔

پاکستان کے صدر عارف علوی نے اتوار کو آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 پر دستخط کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے عملے نے ان کے حکم کے خلاف کام کیا۔

صدر عارف علوی کے اس دعوے اور اپنے ہی عملے کو مورد الزام ٹھہرانے کے بعد قانون کیا کہتا ہے؟ انڈپینڈنٹ اردو نے یہ سب جاننے کے لیے قانونی ماہرین سے بات کی ہے۔

اب قانونی آپشنز کیا ہیں؟

سابق جج شاہ خاور کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’صدر پاکستان نے جلد بازی میں غیر سنجیدہ حرکت کر دی جس کا انہیں اندازہ نہیں ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے سابق جج شاہ خاور کا کہنا تھا کہ ’صدر کے پاس قانونی آپشنز نہیں ہیں، اور نہ ہی معاملہ سپریم کورٹ جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ بل اب قانون بن چکا ہے۔ سپریم کورٹ زبانی احکامات کی کیسے تحقیق کر سکتا ہے؟‘

انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کو جب پارلیمان کے طرف سے بل دستخط کے لیے بھیجا جاتا ہے تو صدر بل دوبارہ غور کے لیے پارلیمنٹ کو واپس بھجوا سکتے ہیں۔ غور کے بعد دوبارہ بل بھیجے جانے کے بعد اگر صدر پاکستان دستخط نہیں بھی کرتے تو دس دن بعد بل خود ہی قانون بن جاتا ہے۔

اس حوالے سے نگران وزیر قانون احمد عرفان اسلم نے اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق جب کوئی بل منظوری کے لیے بھیجا جاتا ہے تو صدر مملکت کے پاس دو اختیارات ہوتے ہیں، یا تو بل کی منظوری دیں یا مخصوص تحفظات کے ساتھ معاملہ پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیں، آرٹیکل 75 کوئی تیسرا آپشن فراہم نہیں کرتا۔‘

جبکہ وزارت قانون کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’صدر مملکت نے جان بوجھ کر منظوری میں تاخیر کی۔ بلوں کو تحفظات یا منظوری کے بغیر واپس کرنے کا اختیار آئین میں نہیں دیا گیا، ایسا اقدام آئین کی روح کے منافی ہے۔ اگر صدر مملکت کے بل پر تحفظات تھے تو وہ اپنے تحفظات کے ساتھ بل واپس کر سکتے تھے جیسے کہ انہوں نے ماضی قریب اور ماضی میں کیا، وہ اس سلسلے میں ایک پریس ریلیز بھی جاری کر سکتے تھے۔‘

اس پر شاہ خاور کا کہنا  ہے کہ ’صدر مملکت نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے عملے سے بل واپس بھجوانے کا کہا تھا لیکن بغیر وجوہات اور تخفظات کے بھی اگر وہ بل واپس بھیجتے ہیں اور دستخط نہیں کرتے پھر بھی یہ قانون بن چکا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’عملے کو کہے گئے زبانی احکامات کی اہمیت نہیں کیونکہ عدالت تحریری ثبوت مانگتی ہے اور سرکاری دفاتر میں احکامات تحریری ہوتے ہیں، اور اگر دستخط کے بغیر واپس نہیں بھی بھیجتے تب بھی دس دن کے بعد وہ قانون کی شکل اختیار کر لے گا۔‘

شاہ خاور نے مزید کہا کہ ’لہذا عملے پر الزام کی اہمیت نہیں ہے، بغیر تخفظات اور بغیر سائن کے بل واپسی کا بھی وہی مطلب ہے کہ دس دن بعد وہ ایکٹ بن جائے گا۔‘

شاہ خاور نے مزید بتایا کہ ’اگر صدر مملکت دوبارہ غور کے لیے تخفظات کے ساتھ بل واپس بھیجتے تو اسمبلی تو تحلیل ہو چکی تھی ایسی صورت میں نئی اسمبلی آنے تک بل معلق ہو جاتا اور جب نئی اسمبلی بنتی تب جوائنٹ سیشن میں اس کی دوبارہ منظوری ہوتی لیکن اب ایسی بھی سچویشن نہیں ہے۔‘

صدر مملکت کے بیان پر قانونی تجزیہ کرتے ہوئے شاہ خاور نے کہا کہ ’آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف جو ایف آئی آر درج ہوئی ہے وہ تو 15 اگست کو ہوئی ہے اور ایکٹ تو دو دن پہلے بنا ہے۔ اس لیے صدر مملکت نے اپنی ٹویٹ میں جو معافی مانگی ہے (جو اس ایکٹ سے متاثر ہوئے ان سے معافی مانگتا ہوں) اس کی اس لیے اہمیت نہیں ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ پہلے سے موجود ہے۔ یہ جو بل تھا یہ اس موجودہ قانون میں ترمیم سے متعلق ہے۔‘

اسی طرح سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ ہے کہ ’صدر مملکت بطور سربراہ کسی بھی بل کو آئین سے ہٹ کر غیر موثر ہونے کی پلاننگ کر رہے تھے جو کہ غیر آئینی عمل ہے، جس نے بھی ان سے ٹویٹ کروائی ہے انہوں نے حماقت کروا دی ہے۔‘

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے شاہ خاور کے تبصرے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ’قانون وہی ہے جو آرٹیکل 75 میں بتایا گیا ہے۔‘

ترمیمی بلز کب منظور ہوئے تھے؟

قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق 31 جولائی کو آرمی ایکٹ ترمیمی بل مشترکہ اجلاس میں منظور ہوا تھا، یہ بل صدر کو توثیق کے لیے یکم اگست کو ارسال کیا گیا تھا۔

گذشتہ قومی اسمبلی نے مدت ختم ہونے سے پہلے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری دی تھی۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کیا ہے؟

آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل کے مطابق کوئی شخص جو جان بوجھ کر امن عامہ کا مسئلہ پیدا کرتا ہے، ریاست کے خلاف کام کرتا ہے، ممنوعہ جگہ پر حملہ کرتا یا نقصان پہنچاتا ہے جس کا مقصد براہ راست یا بالواسطہ دشمن کو فائدہ پہنچانا ہے تو وہ جرم کا مرتکب ہو گا۔ اس کے علاوہ ترمیمی بل کے تحت الیکٹرانک یا جدید آلات کے ساتھ یا ان کے بغیر ملک کے اندر یا باہر سے دستاویزات یا معلومات تک غیر مجاز رسائی حاصل کرنے والا شخص مجرم تصور ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کے اندر یا باہر ریاستی سکیورٹی یا مفادات کے خلاف کام کرنے والے کے خلاف بھی کارروائی ہو گی اور ان جرائم پر تین سال قید، 10 لاکھ روپے جرمانہ یا پھر دونوں سزائیں ہوں گی۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ملزم کا ٹرائل خصوصی عدالت میں ہو گا اور خصوصی عدالت 30 دن کے اندر سماعت مکمل کر کے فیصلہ کرے گی۔

آرمی ایکٹ ترمیمی بل کیا ہے؟

 قومی اسمبلی نے پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 منظور کیا تھا، سینیٹ پہلے ہی یہ بل پاس کر چکا تھا، بل سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔

آرمی ایکٹ کے مطابق کوئی بھی فوجی اہلکار ریٹائرمنٹ، استعفے یا برطرفی کے دو سال بعد تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا جبکہ حساس ڈیوٹی پر تعینات فوجی اہلکار یا افسر ملازمت ختم ہونے کے پانچ سال تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔

اس بل کا اطلاق سویلین پر نہیں ہو گا، آرمی ایکٹ ترمیمی بل2023 کا سپریم کورٹ میں جاری مقدمے پر کوئی اثر نہیں ہو گا، دہری شہریت رکھنے والے افواج پاکستان میں شمولیت اختیار نہیں کر سکیں گے۔ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے مطابق ملکی سلامتی اور مفاد میں حاصل معلومات کے غیر مجاز انکشاف پر سزا ہو گی، متعلقہ شخص کو پانچ سال تک قید کی سزا دی جائے گی۔ پاکستان اور افواج کے خلاف کسی قسم کے انکشاف پر بھی کارروائی ہو گی۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان