انوار الحق کاکڑ نگران وزیراعظم، صدر نے سمری پر دستخط کر دیے

وزیرِ اعظم اور قائد حزب اختلاف نے مشترکہ طور پر نگراں وزیراعظم کے نام کی سمری پر دستخط کر کے ایڈوائس صدر پاکستان کو بھجوائی جس پر دستخط کر دیے گئے۔

وزیرِاعظم شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف راجہ ریاض نے ہفتے کو باہمی مشاورت کے بعد سینیٹر انوار الحق کاکڑ کو نگران وزیر اعظم بنانے پر اتفاق کر لیا۔

شہباز شریف اور راجہ ریاض کے مابین آج مشاورت ہوئی جس کے بعد راجہ ریاض نے میڈیا سے گفتگو میں انوار الحق کاکڑ کو نگران وزیر اعظم بنائے جانے کا بتایا۔

انہوں نے کہا: ’پہلے ہم متفق ہوئے کہ جو بھی وزیراعظم ہو، وہ چھوٹے صوبے سے ہو، تاکہ چھوٹے صوبے کو جو محرومی ہے، وہ دور ہو اور ایسا نام ہو، جو غیرمتنازع ہو، کسی سیاسی جماعت سے نہ ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا اتفاق انوار الحق کاکڑ کے نام پر ہوا ہے، انوار الحق کاکڑ وزیراعظم ہوں گے۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے مطابق وزیرِ اعظم اور قائد حزب اختلاف نے ایڈوائس صدر پاکستان کو بھجوا دی، جنھوں نے ایڈوائس پر دستخط کر دیے گئے۔

بلوچستان کے ضلع سیف اللہ کے انوار الحق کاکڑ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) سے منسلک ہیں اور وہ پاکستان کے آٹھویں نگران وزیر اعظم بنے ہیں۔

نگران کابینہ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں راجہ ریاض کا کہنا تھا کہ یہ نگران وزیراعظم کا اختیار ہوگا، اس حوالے سے ہماری کوئی مشاورت نہیں ہوئی۔

’میں نے اپنی طرف سے کوشش کی ہے کہ چھوٹے صوبے کا ایسا آدمی جو متنازع نہ ہو، اس کا نام پیش کیا تھا، اس پر وزیراعظم شہباز شریف نے اتفاق کر لیا۔‘

جمعے کو اسلام آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے امید ظاہر کی تھی کہ امید ہے کل (ہفتہ) تک ایک نام پر اتفاق رائے قائم کرلیں گے۔

وزیر اعظم نے گذشتہ رات حکمران اتحاد کے رہنماؤں کو عشائیہ دیا تھا جس کے دوران انہوں نے اس حوالے سے مزید مشاورت بھی کی۔

’پی ٹی آئی سے نگران وزیر اعظم کے معاملے پر مشاورت نہیں ہوئی‘

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی پارلیمان کے اندر اور باہرپاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے لیکن ’ہم سے نگران وزیراعظم کے معاملے پر مشاورت نہیں ہوئی۔‘

’اب انوارالحق کاکڑ پر ایک بھاری ذمے داری عائد ہو چکی ہے، توقع کرتے ہیں کہ وہ تین مہینے کے اندر آئین کے مطابق الیکشن یقینی بنائیں گے اور عوام کے جمہوری حقوق پر کوئی ضرب نہیں آنے دیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ الیکشن مہم میں تمام سیاسی جماعتوں کو منصفانہ ماحول دینا لازم ہے اور الیکشن صاف اور شفاف ہونا اس وقت ملک کے لیے انتہائی اہم ہے۔

’اس وقت ہزاروں سیاسی قیدی جعلی مقدمات میں قید ہیں، اس معاملے پر قوم میں بہت بے چینی اور شکوک و شبہات ہیں۔ نگراں وزیراعظم کو اس معاملے پر بھی فوری نوٹس لینا ہو گا۔ پاکستان اس وقت کسی نئے adventurism کا متحمل نہیں۔‘

پی پی پی کے تحفظات

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے نگران وزیر اعظم کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا ’بہتر ہوتا کہ کسی اور شخص کا انتخاب کیا جاتا۔‘

خورشید شاہ نے کہا ان کی جماعت نے ’کمیٹی کے ساتھ مل کر پانچ نام دیے تھے، جس میں سلیم عباس، جلیل عباس، محمد مالک، اور خیبرپختونخوا سے افضل خان کا نام شامل تھا۔

’جہاں سے بھی نام آیا ہے ہمیں امید اچھے کی رکھنی چاہیے۔ انتخابات میں تاخیر کے خدشات تو پہلے دن سے ہیں جب نگران حکومت کے اختیارات میں اضافے کا بل منظور ہوا۔‘

انہوں نے کہا ’انوا رالحق کاکڑ کا نام سینیٹ سے لیا گیا ہے، ہماری توجہ اس طرف نہیں تھی۔ ہمیں علم نہیں تھا کہ انوار الحق کاکڑ کا نام آئے گا۔

’انوار الحق کاکڑ اگر صاف شفاف انتخابات کو یقینی بنانے میں کامیاب ہوئے تو انہیں یاد رکھا جائے گا۔‘

تاہم پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی کا ایکس پر اپنی پوسٹ میں نومنتخب نگران وزیر اعظم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم نے یہ فیصلہ شہباز شریف پر چھوڑا تھا کہ وہ کسے منتخب کریں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انوارالحق کاکڑ نومبر میں ہونے والے اگلے عام انتخابات تک پاکستان کی قیادت کریں گے۔ تاہم بعض حکام پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انتخابات اس سال ہونا مشکل ہیں۔

بدھ کو قومی اسمبلی باضابطہ طور پر تحلیل ہونے کے بعد آئین کے مطابق 90 دن کے اندر انتخابات ہونے ہیں۔

لیکن قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ انتخابات میں تاخیر ہو گی۔ کچھ دن قبل نئی مردم شماری کے اعداد و شمار جاری ہوئے تھے جس کے بعد سبکدوش ہونے والی حکومت نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کو نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے لیے وقت چاہیے۔

اس ہفتے ٹیلی ویژن پر جب سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا اس سال الیکشن ہوں گے تو انہوں نے جواب دیا ’بالکل سادہ سا جواب ہے، نہیں۔‘

الیکشن کمیشن نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

گذشتہ ماہ پارلیمنٹ نے قانون سازی کی تھی، جس کے تحت نگران حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) جیسے عالمی اداروں کے ساتھ مذاکرات کرنے کا زیادہ اختیار مل گیا۔ یہ بھی الیکشن میں تاخیر کا ایک اشارہ ہو سکتا ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس تاخیر سے اتحادی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو عمران خان کی پی ٹی آئی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے وقت مل سکتا ہے۔

ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ انتخابات میں تاخیر سے عوام زیادہ ناراض ہو سکتے ہیں اور ایک ایسی حزب اختلاف مضبوط ہے جو پہلے ہی کئی ماہ سے کریک ڈاؤن کا سامنا کر رہی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست