نگران وزرائے اعظم اور پاکستان

پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں نگران وزیرِ اعظم کے لیے اپنے امیدوار لانے کی کوشش کریں گی لیکن انتخاب تو ویسا بھی ہو سکتا ہے جیسا ہم پنجاب میں دیکھ چکے ہیں۔

قیام پاکستان سے لے کر آج تک کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر پایا (اے ایف پی)

پاکستانی راج نیتی بہت ہی گمبھیر، پیچیدہ اور تیزی سے رنگ بدلتی ہے۔ کل کے بادشاہ آج کے غلام بن جاتے ہیں اور کیا پتہ کل وہ پھر بادشاہ ہوں، یہ اختیار تو فیصلہ ساز کے پاس ہے۔

کہا جاتا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں لیکن یہ بات کتابوں کی حد تک محدود ہے۔ عوام صرف تماشائی کی سی حثیت رکھتے ہیں جو تماشا شروع ہونے پر تالی بجا سکتے ہیں یا ختم ہونے پر آنسو بہا سکتے ہیں۔ طاقت کسی اور کے پاس ہے جو وجود تو رکھتے ہیں لیکن نظر نہیں آتے۔

وہ کون ہیں؟ وہ اس ملک کی اشرافیہ ہیں جو طاقت کا کھیل صرف پیسے اور طاقت کے ضرور پر کھیلتے ہیں۔ یہ سیاسی کھیل شطرنج کی بساط کی طرح ہے۔ بادشاہ، وزیر، پیادے، فیل، رخ اور گھوڑے اس کھیل کا حصہ ہیں۔ اس کھیل میں بادشاہ کو شہ مات دینی ہوتی ہے۔

سیاست اور شطرنج ایک فکری کھیل ہے جس میں سوچ پلاننگ اور چالوں کے ساتھ فریق کو مات دی جاتی ہے۔ بادشاہ ہمیشہ شش و پنج میں رہتا ہے کہ کون کب اس کی بساط الٹ دے۔

سیاست کا بھی یہی حال ہے۔ پاکستان کی شطرنج کی بساط پر وزیراعظم کی کرسی ہمیشہ خطرے میں رہی ہے۔ وزیر اعظم اس بساط پر صرف چار خانوں تک محدود رہتا ہے۔ کب اس کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی جائے کسی کو معلوم نہیں۔ قیام پاکستان سے آج تک کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر پایا۔ اسی سیاسی کشمکش کی وجہ سے پاکستان اقتصادی طور پر ہمسایہ ملکوں سے بہت پیچھے رہ گیا۔

مطالعہ پاکستان میں درج ہے کہ ہم زرعی ملک ہیں، معدنیات سے مالا مال ہیں، تو پھر اتنی غربت کیوں ہے؟ ہم اپنے پڑوسیوں کے مقابلے میں اتنے پیچھے کیوں رہ گئے۔ وجہ وہی کہ یہاں حکومتوں کو چلنے نہیں دیا جاتا۔ یہاں جمہوری ادوار میں افراتفری رہتی ہے۔

پاکستان میں سب سے غیر محفوظ کرسی اکثر وزراعظم کی دیکھی گئی ہے۔ اس کرسی میں کچھ خاص وفا نہیں، یہ کسی کی بھی نہیں ہوتی۔ ایک کانٹوں سے بنا ہوا تخت ہے جس پر اس کا نیا حقدار زیادہ دن ٹھہر نہیں پاتا۔ اس کے چار پائے الگ الگ کندھوں پر کھڑے ہیں۔ جب کسی ایک کا دل کرتا ہے اپنی سپورٹ ہٹا لیتا ہے اور ’ہاؤس آف پی ایم‘ تاش کے پتوں کی طرح بکھر جاتا ہے۔

اس میں زیادہ قصور سیاست دانوں کا اپنا ہے جو ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں شریک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی حکومت کو چلنے نہیں دیتے۔ پاکستان میں وزرائے اعظم اتنی جلدی جلدی تبدیل ہوئے کہ مطالعہ پاکستان میں طالب علموں کے لیے یہ باب بہت مشکل ہوتا ہے۔ جو کچھ حالیہ سالوں میں پنجاب میں ہوا وہ تو ویسے ہی جمہوری دور میں سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب کچھ عرصے سے اسمبلیاں اپنی مدت پانچ سال پوری کر رہی ہیں، لیکن وزیراعظم کو یہ سہولت تاحال میسر نہیں۔ پاکستان کے ایک وزیراعظم جلسے میں قتل ہوئے، ایک وزیراعظم پھانسی چڑھ گئے، ایک تختہ دار سے بیرون ملک روانہ ہو گئے، ایک کی قسمت میں گولی تھی تو ایک ہاتھ میں سائفر لہراتے ہوئے گھر کو لوٹ گئے۔

لیاقت علی خان نے چار سال 62 دن تک حکمرانی کی، نواز شریف نے چار سال 53 دن اور یوسف رضا گیلانی نے چار سال 30 دن۔ ان کے علاوہ سب کا دورانیہ کم ہے، کوئی تین سال کوئی ایک سال تو کسی کی حکومت دنوں پر محیط تھی۔

اسی طرح نگران وزرائے اعظم کی تاریخ بھی بہت دلچسپ ہے۔ نگران وزیر اعظم اس وقت حکمران بنتا ہے جب اسمبلی اپنی مدت پوری کرے۔ اس کی بنیادی ذمہ داری اگلے انتخابات کروانے ہوتے ہیں۔

نگران وزیراعظم ایسی سیاسی صورت حال میں مقرر کیا جاتا ہے تاکہ ملکی معاملات چلائیں جائیں۔ اس کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ جس وقت صدر غلام اسحاق نے بےنظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی اس وقت معروف سیاست دان غلام مصطفی جتوئی کو نگران وزیراعظم مقرر کیا گیا جو پاکستان کے پہلے نگران وزیراعظم تھے۔

اس کے بعد بلخ شیر مزاری نگران وزیراعظم ہوئے کیونکہ 1993 میں صدر اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت کو بھی برطرف کر دیا۔ بلخ شیر مزاری ایک ماہ چند دن کی مدت کے لیے نگران وزیراعظم رہے۔ نواز شریف عدالتی حکم پر بحال تو ہو گئے لیکن ان کی حکومت چل نہیں سکی۔

18 جولائی کو نواز شریف نے بطور وزیراعظم اور معین قریشی کو نگران وزیراعظم بنایا گیا۔ وہ بیرون ملک مقیم تھے، ان کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تک نہیں نہیں تھا۔ پر پاکستان میں ایسے ایسے فیصلے ہوتے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔

معین قریشی آئی ایم ایف سے منسلک تھے۔ اکتوبر میں الیکشن کروانے کے بعد وہ واپس امریکہ چلے گئے۔ پاکستان میں فیصلے کیسے کب اور کہاں ہوتے ہیں، یہ تو فیصلہ ساز کے کرشمے ہیں۔

اس کے بعد نگران وزیراعظم معراج خالد بنے۔ وہ بہت درویش صفت انسان تھے سیاسی حلقوں میں ان کا بہت احترام تھا، انہوں نے تین ماہ کی مقررہ مدت میں انتخابات کروائے۔

اس کے بعد میاں محمد سومرو نگران وزیراعظم مقرر ہوئے۔ ملک میں نویں عام انتخاب ہوئے اور پی پی پی اقتدار میں آ گئی۔ اس کے بعد بالترتیب میر ہزار خان کھوسو اور ناصر الملک نگران وزیراعظم مقرر ہوئے۔

نگران وزیراعظم حکومت اپوزیشن پارلیمان اور الیکشن کمیشن کے اتفاق رائے سے آتا ہے۔ بعض میڈیا رپورٹوں کے مطابق مسلم لیگ ن نے اس حوالے سے عقل مندی دکھانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے من پسندیدہ افراد کی طرف سے اسحاق ڈار کا نام مارکیٹ میں پیش کر دیا، تاہم ان کے اتحادی پی پی پی نے اس کا برا منایا اور اس کی مخالفت کی۔

میڈیا میں نام دینے کے بجائے حکومت کو آئینی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ چند نام سامنے رکھے جاتے ہیں، اگر معاملہ حل نہ ہو تو سپیکر کی کمیٹی کے پاس یہ معاملہ چلا جاتا ہے۔

اتفاق رائے کے بعد صدر پاکستان نگران وزیراعظم مقرر کر دیں۔ پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں نگران وزیرِ اعظم کے لیے اپنے امیدوار لانے کی کوشش کریں گی لیکن انتخاب تو ویسا بھی ہو سکتا ہے جیسا ہم پنجاب میں دیکھ چکے ہیں کہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے دو افراد اس وقت حکمرانی کر رہے ہیں اور الیکشن کروانے کے علاوہ تمام کام کر رہے ہیں۔

نگران حکومت کا کام صرف الیکشن کروانا ہے ان کا کام پالیسی سازی یا معاہدے کرنا نہیں ہے۔ تاہم پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے بقول قاضی حسین احمد ملک میں معین قریشی جیسے امپورڈ وزیراعظم بھی آ سکتے ہیں یا پھر معراج خالد جیسے وضع دار سیاست دان یا کوئی سابق جج۔

فیصلہ تو فیصلہ ساز کریں گے اور آپ میں اور عوام بس خاموشی سے تماشا دیکھتے رہیں گے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست