افغانستان کے صوبہ بامیان میں واقع ایک معروف تفریحی مقام بند امیر میں خواتین کے داخلے پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد افغان خواتین سمیت دنیا بھر سے طالبان کے اس فیصلے پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔
افغانستان میں انسانی حقوق کے موضوع پر اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر رچرڈ بینیٹ نے اپنے ’ایکس‘ سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے کہ ’کیا کوئی یہ وضاحت کر سکتا ہے کہ شریعت اور افغان کلچر پر عمل کرنے کے لیے بند امیر پر جانے والی خواتین کی ممانعت کیوں ضروری ہے؟‘
Can someone please explain why this restriction on women visiting Bande Amir is necessary to comply with Sharia and Afghan culture? #womensrightsarenotnegotiable https://t.co/QbC6azYbmm
— UN Special Rapporteur Richard Bennett (@SR_Afghanistan) August 27, 2023
افغانستان کے امر بالمعروف ونہی عن المنکر وزارت کے نگران وزیر محمد خالد حنفی نے ہفتہ کو 26 اگست کو صوبہ بامیان میں ایک تقریب کے دوران مذہبی علما اور سکیورٹی اداروں سے درخواست کی تھی کہ بند امیر نیشنل پارک میں خواتین کے داخلے پر پابندی عائد کی جائے۔
خالد حنفی کے مطابق جب تک خواتین سیاحوں کے لیے مکمل ضابطہ کار ترتیب نہیں دیا جاتا یہ پابندی برقرار رہے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے اس بات کی بھی شکایت کی کہ ان کی وزارت کے احکامات پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ انہیں شکایت تھی کہ خواتین حجاب یا پردے کا مناسب خیال نہیں رکھ رہی تھیں۔
’خواتین اور ہماری بہنیں اس وقت تک بند امیر (پارک) نہیں جاسکتیں، جب تک ہم کئی اصولوں پر اتفاق نہیں کر لیتے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سکیورٹی ایجنسیاں، اکابرین اور انسپکٹرز سے درخواست ہے کہ وہ اس مد میں قانون کی پاسداری کریں۔شریعت کے مطابق خواتین کا سیاحت کی خاطر گھر سے نکلنا لازمی نہیں۔‘
افغانستان میں انسانی حقوق پر کام کرنے والی فرشتہ عباسی نے جو حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے لیے کام کرتی ہیں ’ایکس‘ اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ طالبان کا یہ اقدام افغان خواتین کی بے عزتی کے مترادف ہے۔
’خواتین کے یوم مساوات پر طالبان نے ایک نیا حکم نامہ جاری کیا ہے۔ امن و محبت کے شہر کے اس شاندار مقام بند امیر پر خواتین نہیں جا سکتیں، جو کہ افغان خواتین کی سراسر تو ہین ہے۔‘
On Women’s Equality Day, The Taliban has now issued a new order; Women can't visit Bande Amir, This magnificent place in Bamiyan province of Afghanistan, the city of peace and love.
— Fereshta Abbasi (@FereshtaAbbasi) August 26, 2023
This is a total disrespect to the women of Afghanistan. Awful. pic.twitter.com/GtQf0FoTZa
افغانستان کے مرکزی شہر کابل کی ایک رہائشی خاتون جو اپنا فرضی نام ’ہوسی‘ بتاتی ہیں نے اس موضوع پر انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ خواتین کے خلاف طالبان کے رویے میں دن بدن سختی آرہی ہے۔
’2021 میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد آہستہ آہستہ افغان خواتین کا گلہ دبایا جارہا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب ہمیں مکمل طور پر گھر میں قید کرلیا جائے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’طالبان کی جانب سے مختلف بندشوں کی وجہ سے رواں سال بہت کم خواتین بامیان پارک گئیں۔‘
بند امیر افغانستان کے صوبہ بامیان میں واقع صاف پانی کی ایک جھیل ہے اور افغان حکومت نے اس کو 2009 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا تھا، جس کے بعد ہزاروں کی تعداد میں سیاح ہر سال موسم گرما میں اس جگہ کا رخ کرتے ہیں اور کشتیوں میں جھیل کا لطف اٹھاتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے اس پابندی کو افغان خواتین پر عائد پابندیوں کی فہرست میں تازہ ترین قرار دیا۔
رواں سال جون میں افغان طالبان نے ملک بھر میں خواتین کے بیوٹی پارلرز کو بند کرنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔
اس سے قبل طالبان حکام نے خواتین کے تفریحی پارکوں اور ورزش گاہوں میں جانے کو بھی محدود کیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ کام کرنے والی معروف امریکی رضاکار حیدر بار نے ایک غیر ملکی نیوز جریدے کو بتایا کہ انہوں نے جتنی بھی افغان خواتین کے ساتھ پابندیوں کے اس موضوع پر بات کی ہے، ان سب نے طالبان کے مسلسل جارحیت کا شکوہ کیا ہے۔
’لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم، روزگار اور آزادانہ نقل و حرکت سے محروم رکھنے سے مطمئن نہیں، طالبان ان سے پارک اور کھیل اور اب فطرت بھی لینا چاہتے ہیں۔ قدم قدم پر دیواریں خواتین پر سمٹ رہی ہیں کیونکہ ہر گھر جیل بن گیا ہے۔‘
“Not content with depriving girls and women of education, employment, and free movement, the Taliban also want to take from them parks and sport and now even nature. Step by step the walls are closing in on women as every home becomes a prison.” https://t.co/DUALNrTAF6
— Heather Barr (@heatherbarr1) August 27, 2023
افغان وکیل فرشتہ راز بان ایکس اکاؤنٹ پر لکھتی ہیں۔
’دل دہلا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ افغان خواتین معاشرے سے مسلسل غائب ہوتی جا رہی ہیں، جس سے عالمی سطح پر غم و غصہ پھیل رہا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ عالمی برادری اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام اٹھانے میں اب تک ناکام ہے۔‘
The heartbreaking reality is that Afghan women continue to vanish from society, fueling widespread global outrage. Sadly, the international community fails to provide any meaningful action to address this issue. https://t.co/1qeW3OFSIR
— FRESHTA RAZBAAN (@FRESHTARAZBAAN0) August 26, 2023
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس کونسل کے مطابق طالبان کے اس قسم کے اقدامات خواتین پر ’منظم‘ پابندیاں لگانے کے مترادف ہے۔
کونسل کا کہنا ہے کہ اگر طالبان عالمی برادری کے ساتھ برابری کے تعلقات چاہتے ہیں تو خواتین اور لڑکیوں کے معاملے میں انہیں پالیسی پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔
سال 2021 اگست سے افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہے تاہم آج تک کسی بھی حکومت، ملک یا ادارے نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔