افغانستان: خواتین کے پارک میں جانے پر پابندی تنقید کی زد میں

افغان خواتین سمیت دنیا بھر سے طالبان کا ایک تازہ فیصلہ تنقید کی زد میں جس میں ایک معروف تفریحی مقام کو خواتین کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔

چار اکتوبر 2021 کو بامیان صوبے میں بندِ امیر پارک میں لوگ جھیل کے نظارے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں (اے ایف پی)

افغانستان کے صوبہ بامیان میں واقع ایک معروف تفریحی مقام بند امیر میں خواتین کے داخلے پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد افغان خواتین سمیت دنیا بھر سے طالبان کے اس فیصلے پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔

افغانستان میں انسانی حقوق کے موضوع پر اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر رچرڈ بینیٹ نے اپنے ’ایکس‘ سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے کہ ’کیا کوئی یہ وضاحت کر سکتا ہے کہ شریعت اور افغان کلچر پر عمل کرنے کے لیے بند امیر پر جانے والی خواتین کی ممانعت کیوں ضروری ہے؟‘ 

افغانستان کے امر بالمعروف ونہی عن المنکر وزارت کے نگران وزیر محمد خالد حنفی نے ہفتہ کو 26 اگست کو صوبہ بامیان میں ایک تقریب کے دوران مذہبی علما اور سکیورٹی اداروں سے درخواست کی تھی کہ بند امیر نیشنل پارک میں خواتین کے داخلے پر پابندی عائد کی جائے۔ 

خالد حنفی کے مطابق جب تک خواتین سیاحوں کے لیے مکمل ضابطہ کار ترتیب نہیں دیا جاتا یہ پابندی برقرار رہے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اس بات کی بھی شکایت کی کہ ان کی وزارت کے احکامات پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ انہیں شکایت تھی کہ خواتین حجاب یا پردے کا مناسب خیال نہیں رکھ رہی تھیں۔

’خواتین اور ہماری بہنیں اس وقت تک بند امیر (پارک) نہیں جاسکتیں، جب تک ہم کئی اصولوں پر اتفاق نہیں کر لیتے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سکیورٹی ایجنسیاں، اکابرین اور انسپکٹرز سے درخواست ہے کہ وہ اس مد میں قانون کی پاسداری کریں۔شریعت کے مطابق خواتین کا سیاحت کی خاطر گھر سے نکلنا لازمی نہیں۔‘

افغانستان میں انسانی حقوق پر کام کرنے والی فرشتہ عباسی نے جو حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے لیے کام کرتی ہیں ’ایکس‘ اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ طالبان کا یہ اقدام افغان خواتین کی بے عزتی کے مترادف ہے۔

’خواتین کے یوم مساوات پر طالبان نے ایک نیا حکم نامہ جاری کیا ہے۔ امن و محبت کے شہر کے اس شاندار مقام بند امیر پر خواتین نہیں جا سکتیں، جو کہ افغان خواتین کی سراسر تو ہین ہے۔‘

افغانستان کے مرکزی شہر کابل کی ایک رہائشی خاتون جو اپنا فرضی نام ’ہوسی‘ بتاتی ہیں نے اس موضوع پر انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ خواتین کے خلاف طالبان کے رویے میں دن بدن سختی آرہی ہے۔ 

’2021 میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد آہستہ آہستہ افغان خواتین کا گلہ دبایا جارہا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب ہمیں مکمل طور پر گھر میں قید کرلیا جائے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’طالبان کی جانب سے مختلف بندشوں کی وجہ سے رواں سال بہت کم خواتین بامیان پارک گئیں۔‘

بند امیر افغانستان کے صوبہ بامیان میں واقع صاف پانی کی ایک جھیل ہے اور افغان حکومت نے اس کو 2009 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا تھا، جس کے بعد ہزاروں کی تعداد میں سیاح ہر سال موسم گرما میں اس جگہ کا رخ کرتے ہیں اور کشتیوں میں جھیل کا لطف اٹھاتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ نے اس پابندی کو افغان خواتین پر عائد پابندیوں کی فہرست میں تازہ ترین قرار دیا۔ 

رواں سال جون میں افغان طالبان نے ملک بھر میں خواتین کے بیوٹی پارلرز کو بند کرنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔ 

اس سے قبل طالبان حکام نے خواتین کے تفریحی پارکوں اور ورزش گاہوں میں جانے کو بھی محدود کیا تھا۔ 

ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ کام کرنے والی معروف امریکی رضاکار حیدر بار نے ایک غیر ملکی نیوز جریدے کو بتایا کہ انہوں نے جتنی بھی افغان خواتین کے ساتھ پابندیوں کے اس موضوع پر بات کی ہے، ان سب نے طالبان کے مسلسل جارحیت کا شکوہ کیا ہے۔

’لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم، روزگار اور آزادانہ نقل و حرکت سے محروم رکھنے سے مطمئن نہیں، طالبان ان سے پارک اور کھیل اور اب فطرت بھی لینا چاہتے ہیں۔ قدم قدم پر دیواریں خواتین پر سمٹ رہی ہیں کیونکہ ہر گھر جیل بن گیا ہے۔‘

افغان وکیل فرشتہ راز بان ایکس اکاؤنٹ پر لکھتی ہیں۔

’دل دہلا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ افغان خواتین معاشرے سے مسلسل غائب ہوتی جا رہی ہیں، جس سے عالمی سطح پر غم و غصہ پھیل رہا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ عالمی برادری اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام اٹھانے میں اب تک ناکام ہے۔‘

The heartbreaking reality is that Afghan women continue to vanish from society, fueling widespread global outrage. Sadly, the international community fails to provide any meaningful action to address this issue. https://t.co/1qeW3OFSIR

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس کونسل کے مطابق طالبان کے اس قسم کے اقدامات خواتین پر ’منظم‘ پابندیاں لگانے کے مترادف ہے۔ 

کونسل کا کہنا ہے کہ اگر طالبان عالمی برادری کے ساتھ برابری کے تعلقات چاہتے ہیں تو خواتین اور لڑکیوں کے معاملے میں انہیں پالیسی پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔ 

سال 2021 اگست سے افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہے تاہم آج تک کسی بھی حکومت، ملک یا ادارے نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین