عمران خان کی سزا معطل، دیگرمقدموں میں مطلوب: قانون کیا کہتا ہے؟

کیا دیگر مقدمات میں مطلوب ہونے اور ضمانتیں خارج ہونے کے باعث عمران خان کی رہائی ممکن ہو سکے گی؟

سابق وزیراعظم عمران خان کی یہ تصویر 17 مارچ 2023 کو روئٹرز کو دیے ایک انٹرویو کے موقع کی ہے (روئٹرز)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ فوجداری ٹرائل میں سزا معطلی کا حکم جاری کر دیا ہے تاہم مچلکے جمع نہ ہونے کے باعث رہائی کی روبکار جاری نہ ہو سکی اور اب یہ معاملہ آج (بروز بدھ) نمٹنے کا امکان ہے۔

بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانتی مچلکے جمع کروائے جائیں گے اور ٹرائل کورٹ سے روبکار جاری ہونے کے بعد عمران خان کی اٹک جیل سے رہائی ممکن ہو سکے گی۔

لیکن یہاں قانونی سوال یہ ہے کہ کیا دیگر مقدمات میں مطلوب ہونے اور ضمانتیں خارج ہونے کے باعث یہ رہائی ممکن ہو سکے گی؟

عمران خان کی جانب سے ان کے وکلا نے اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کر رکھی ہے کہ پولیس، نیب اور ایف آئی اے حکام کو توشہ خانہ کیس میں رہائی کے بعد دیگر مقدمات میں گرفتاری سے روکا جائے، تاہم یہ درخواست ابھی سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس بارے میں قانونی ماہرین سے بات کی اور اس کیس میں قانونی پیچیدگیوں کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے۔

سابق جج شاہ خاور اس حوالے سے کہتے ہیں کہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطلی پر یہ فیصلہ متوقع تھا کیونکہ قانون میں تین سال سزا کو کم سزا تصور کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اس سزا معطلی سے جیل سے رہا ہوں گے یا نہیں؟ کیونکہ سائفر کے تحت آفیشل سیکرٹ ایکٹ مقدمے میں ان کی گرفتاری ہو چکی ہے اور اٹک جیل میں وہ زیر تفتیش ہیں۔‘

شاہ خاور کہتے ہیں کہ جب تک کسی بھی مقدمے میں چالان پیش نہیں ہوتا تو ملزم کے 14، 14 دن کے دو جوڈیشل ریمانڈ ہوتے ہیں۔ بدھ کو عمران خان کے 14 دن مکمل ہو رہے ہیں، اس لیے ان کو پیش کرنے کا کہا گیا ہے۔

سابق جج نے کہا کہ ’جب تک دیگر مقدمات جن میں عمران خان کی ضماتیں خارج ہیں یا وہ گرفتار ہو چکے ہیں تب تک ان کی رہائی ممکن نہیں ہو گی جبکہ سائفر مقدمے میں اسد عمر نے ضمانت قبل از گرفتاری دائر کی تو عدالت نے 14 ستمبر تک اس میں توسیع کر دی ہے۔

’اس لیے اب اسی مقدمے میں نامزد ملزمان عمران خان اور شاہ محمود قریشی ضمانت بعد از گرفتاری دائر کریں گے تو تکنیکی طور پہ وہ 14 ستمبر سے پہلے نہیں سنی جا سکتی بلکہ اسی مقدمے میں پہلے سے موجود درخواست کے ساتھ یکجا ہو جائے گی۔‘

شاہ خاور نے مزید بتایا کہ ’سزا معطلی سے سزا یافتہ کا ٹائٹل ختم نہیں ہوتا، اس لیے وہ نااہل ہی رہیں گے جب تک مرکزی اپیل کالعدم نہیں ہو جاتی۔ اگر مرکزی اپیل میں ریلیف مل بھی گیا لیکن آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں سزا یافتہ ہوں گئے تو نااہلی برقرار رہے گی۔‘

سینیئر فوجداری وکیل رانا حسن عباس کے خیال میں مچلکے جمع ہو بھی جائیں اور روبکار جاری ہونے کے باوجود بدھ کو عمران خان کی رہائی قانونی طور پر ممکن نہیں دکھائی دے رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رانا حسن عباس نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مزید وضاحت کی کہ ’جیل حکام کے پاس خصوصی عدالت کا تحریری حکم نامہ موجود ہے جس میں انہیں واضح کیا گیا ہے کہ جوڈیشل ریمانڈ مکمل ہونے پر عمران خان کو پیش کیا جائے، تو ایسی صورت میں جیل حکام انہیں رہا نہیں کر سکتے۔

’اگر جیل حکام کے پاس کسی اور عدالت کا تحریری حکم موجود نہیں ہوتا تو پھر وہ رہا کر سکتے تھے اور دیگر مقدمات جن میں عدم پیشی پر ضمانتیں خارج ہوئی ہیں، ان پر گرفتاری جیل سے باہر نکلنے پر ہو سکتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’بدھ کو جب ریمانڈ کے بعد خصوصی عدالت میں عمران خان کو پیش کیا جائے گا تو پھر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مقدمے میں ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائر کی جا سکتی ہے لیکن وہ درخواست پہلے مقرر ہو گی، پھر اس پر دلائل ہوں گی اور فیصلہ ہو گا۔ تب تک عمران خان اٹک جیل میں ہی رہیں گے۔‘

رانا حسن عباس سمجھتے ہیں کہ توشہ خانہ ٹرائل میں سزا معطلی کا دیگر مقدمات کی کارروائی پر فرق نہیں پڑے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ خصوصی عدالت اگر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مقدمے میں ضمانت نہیں دیتی تو پھر ہائی کورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ کا فورم موجود ہے۔

رانا حسن عباس کے مطابق:’ کچھ مقدمات تو ایسے ہیں جن میں عدم پیشی پر ضمانتیں خارج ہوئی ہیں اور کچھ ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں خارج ہوئی ہیں اور ان میں وہ مطلوب نہیں ہوں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ ان کیسز میں مطلوب ہوں گے جن میں شامل تفتیش ہونا ضروری ہے۔ نیب میں بھی ضمانت خارج ہوئی ہے لیکن زیر حراست رکھنے کا کوئی حکم نامہ موجود نہیں ہے، جس کی بنیاد پر جیل حکام انہیں روکیں۔ ابھی جیل حکام کے پاس صرف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا حکم نامہ ہے۔‘

عمران خان کی اٹک جیل سے ممکنہ رہائی اور دوبارہ گرفتاری کے خدشے کے حوالے سے جب پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل نعیم احمد پنجوتہ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں دوبارہ عدالت سے ہی رجوع کیا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست