کیا کھیل کے ذریعے جنگ کے زخم کا علاج ممکن ہے؟

وحشیانہ خانہ جنگی کے دس برس خاتمے کے بعد بھی سری لنکا کو سیاسی کشیدگی نے تقسم کر رکھا ہے۔ اور جیسے کہ ایڈ میلان کو معلوم ہوا کرکٹ کے میدانوں میں بھی سکون کم ہی ملا ہے

رنگنا ہیراتھ نے گالے ٹیسٹ میں کرکٹ کو خیرباد کہا۔ گیٹی

کبھی آپ کے سفر کے دوران ایسی گفتگو ہوتی ہے جو دراصل آپ کے ساتھ چپکی رہتی ہے۔ جزیرہ نما سری لنکا میں گزشتہ برس انگلینڈ کرکٹ ٹیم کی سترہ برسوں میں پہلی ٹیسٹ سیریز جیت دیکھنے کے بعد یہ میری ایک مقامی شخص کے ساتھ آخری گفتگو تھی جو میں آج تک نہیں بھلا سکا ہوں۔

کام پر جاتے ہوئے میں نے یہ عادت بنا رکھی ہے کہ میں ٹیکسی ڈرائیوروں، ہوٹل والوں یا کسی بھی مقامی شخص سے باتیں کرتا ہوں۔ یہ لوگ اچھا جانتے ہیں کہ آپ ان کے ملک میں دلچسپی لے رہے ہیں، اور اگرچہ جو رائے آپ سنتے ہیں وہ ایک دوسری سے انتہائی مختلف ہوتی ہے، لیکن جب آپ ان تمام آراء کو یکجا کرتے ہیں تو ایک تصویر ابھرنی شروع ہو جاتی ہے کہ لوگ اپنے ملک (اس مرتبہ سری لنکا) کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ اس دلکش جزیرے پر جو کہ برصغیر سے بحرہ ہند میں گرنے والے ایک آنسو کی مانند ہے آمد پر آپ کو معلوم نہیں پڑتا کہ بین القوامی سطح پر شہ سرخیاں ایک سیاسی بحران کی چل رہی تھیں۔

سپیکر نے صدر میتھریپالا سریسینا کی جانب سے وزیر اعظم رنیل ویکراماسنگے کو برطرف کرنے کے بعد - جسے غیرآئینی اقدام قرار دیا گیا - اور ماندرا راجہ پکسا کو تعینات کیا دھمکی دی ”اگر آپ اسے گلی کوچوں میں لے جائیں تو وہاں خونریزی ہوگی۔” اس کے بعد کی ہفتوں میں سیاسی جوڑتوڑ، دعوی اور جوابی دعوی سامنے آئے۔ ویکراماسنگے نے وزیر اعظم کی برطانیوی راج کی تعمیر شدہ رہائش گاہ ٹیمپل ٹریز چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ یہ عمارت ایک وقت میں سیلون کی سینامن ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کی ملکیت تھی لیکن جو اب ایک جو ایک سیاسی طوفان کا مرکز بننے والے سیاستدان کی پناہ گاہ ہے۔

سریسینا نے ماضی میں راجہ پاسکا کے حلیف تھے لیکن 2015 کے انتخابات سے قبل حریف بن گئے۔ اب ایک مرتبہ پھر ماضی کے دشمن کے حامی بن گئے۔ انہوں نے ویکراماسنگے کو پارلیمانی راستے سے ہٹانے کے لیے ووٹوں کی تلاش کی۔ لیکن جب وہ نہیں ملے تو صدر نے ایوان ہی تحلیل کر دیا۔

آپ نے یقینا وہ ویڈیو دیکھی ہوگی جس میں سری لنکا کے سیاستدان پارلیمان میں لڑ رہے ہیں۔ ان مناظر نے ایک عزت دار قوم کو شرمندہ کر دیا۔ چلیں اب واپس اپنی گفتگو کی جانب لوٹ آئیں۔ یا اس کے آغاز کی جانب فل الحال۔

مجھے ہوائی اڈے لیجاتے ہوئے منوج نے کہا کہ ”ہمیں تمام زندگی برے سیاستدان ہی ملے۔ ہمیں بس معمول کے مطابق چلتے رہنا ہے۔”

پالیکل سٹیڈیم میں انگلینڈ کی سیریز کی فتح کے بعد ٹیم واپس کولمبو اور مہنگے گالے فیس علاقے کے پرتیش شنگریلا ہوٹل پہنچی۔یہ ہوٹل 2017 میں شروع ہوا اور کھلاڑی اس بات پر عمومی طور پر متفق ہیں کہ اب تک کے کسی بھی ٹور پر یہ سب سے بہترین مقام ہے جہاں وہ ٹھرے تھے۔ لیکن آخری مرتبہ جب انگلینڈ کرکٹ ٹیم نے یہاں ٹیسٹ سیریز میں فتح حاصل کی تھح اس وقت ان لانز اور بڑے سویمنگ پولز کے گرد کانٹے دار تار اور ٹینک تھے۔

سری لنکا ایک دھائی کے بعد بھی خونریز خانہ جنگی سے دور نہیں۔ جنگ کے زخم عوامی زندگی کے ہر پہلو میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ سیریز کے آغاز پر بھی جب راجہ پکسا کی واپسی سے سیاسی بحران شروع ہوا۔ راجہ پکسا روایتی مرد آہن طرز کے رہنما ہیں۔ جب آپ سری لنکا کے لوگوں سے بات کرتے ہیں تو یہ واضح ہے وہ اب بھی جزیرے کی خانہ جنگی کے دوران حکومت میں ہونے والی وجہ سے ان کی عزت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ تاہم ان کے خلاف سرکاری فورسز کے خلاف جن کی کمان ان کے بھائی کے ہاتھ میں تھی جنگی جرائم اور تقریبا چالیس ہزار تمل کی ہلاکت جیسے سنگین الزامات ہیں۔ حکومت نے ہمیشہ ان دعوی کی تردید کی ہے۔     

کینڈی ہوٹل کے مالک سراتھ نے مجھے بتایا کہ ”وہ ایک مضبوط رہنما ہیں۔ انہوں نے جنگ ختم کی اور انہوں نے کئی اچھے کام کیے ہیں۔ ہمیں ویکراماسنگے کے تصورات پسند تھے، لیکن ان کے وعدے وفا نہیں ہوئے۔”

”سٹرانگ مین یا مرد آہن” کا تصور ہمارے وقت کا ایک عالمی رجحان ہے اور یہ بظاہر ایشیائی سیاست میں خصوصا برے ضغیر میں بہت مقبول ہے۔ مقامی لوگوں سے گفتگو سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بعض اوقات کھل کر یہ بات کرتے ہیں وہ بدعنوانی اور طاقت کے چھوٹے مراکز میں جمع ہونے کو برداست کرسکتے ہیں اگر ایک سیاستدان ان کے مسائل حل کر سکے۔ یہ ہی شاید راجہ پکسا کے بارے میں رائے ہے اور یہ ایک شبہہ ہے جسے وہ ہر موقع پر تقویت دیتے ہیں۔

موجودہ حکومت کے لیے مشکل کا جو صدر سرسینا کہتے ہیں کہ وہ حل کرنا چاہتے ہیں تعلق مرکزی بینک کی جانب سے متنازعہ بانڈز کی فروخت ہے جس سے خیال ہے کہ قوم کو ساڑھے چھ کروڑ ڈالرز سے زائد کا ٹیکہ لگا ہے۔ گالے میں ریسورانٹ چلانے والے کمار کا بانڈز کے سکینڈل کے حوالے سے کہنا تھا کہ ”ویکراماسنگے اچھے تھے لیکن یہ تو ایک بینک لوٹا گیا ہے۔ وہ مغرب کا آدمی ہے جبکہ راجہ پکسا چین کا ہے۔”

یہ تقسیم اہم ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ کولمبو میں گھومتے پھرتے ہوئے آپ بیرونی پیسے سے تعمیر کیے گئے انفراسٹرکچر کے منصوبوں کو نظر انداز کرسکیں۔ چین نے خصوصا توجہ دی ہے برصغیر ایشیا میں پاکستان اور بنگلہ دیش میں بندگاہیں اور شاہراہیں تعمیر کرکے اپنی اہمیت ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ سری لنکا میں بہت زیادہ مصروف ہے۔ چین کے ساتھ راجہ پکسا کے روابط کے بارے میں خدشات ہیں خصوصا ان بھاری قرضوں پر جو وہ حاصل کر رہے ہیں۔ لیکن جب امریکہ بدریج خود کو دنیا سے تنہا کر رہا ہے، چین کا اثر بڑھ رہا ہے۔

پہلے ٹیسٹ کے لیے کولمبو سے گالے کے سفر کے دوران سیاسی غیریقینی صورتحال روپے کو گرا رہی تھی۔ ہزاروں کی تعداد میں برطانیوی سیاحوں کی ملک میں خصوصا گالے میں آمد سیاحت کی صعنت کے لیے اچھا شگون تھا۔ یہ آمد ایک ایسے وقت ہوئی جب دنیا میں سیاسی غیریقینی صورتحال کی خبر بڑے سیزن سے پہلے پھیلنا شروع ہوئی تھی۔

گالے ٹیسٹ میچ کے لیے ایک بہترین مقام ہے، جہاں جزیرے کے جنوبی ساحل کے اردگرد بڑی تعداد میں ہوٹل موجود ہیں اور اس دلکش سٹیڈیم کے اوپر ایک تاریخی قلعہ بھی ہے۔ یہ خاص میچ سری لنکا کی کرکٹ کا جشن تھا، جس میں رنگنا ہیراتھ نے ریٹائرمنٹ سے قبل تین میچوں کی سیریز میں محض پہلے ٹیسٹ میں کھیل کھیلنے کا غیر معمولی قدم اٹھایا تھا۔ ان سے اس کی درخواست اس لیے کی گئی تھی تاکہ وہ اپنے کیریر کا اختتام اسی میدان میں کر سکیں جہاں انہوں نے 100 ٹیسٹ وکٹیں حاصل کی تھیں۔

اس چالیس سالہ کھلاڑی نے ریٹائرمنٹ ایک ایسے وقت لی جب ان کا شمار اب تک کے بائیں بازو کے بہترین باؤلر کے طور پر ہوتا ہے اور ان کی روانگی نے دراصل ہمیں سری لنکا کی کرکٹ کے بارے میں بہت کچھ بتایا۔ ہیراتھ نے اپنے پیچھے ایسی ٹیم چھوڑی جس میں بین القوامی شائقین کے لیے کوئی جانے پہچانے نام نہیں تھے۔ سٹارز اگر ہیراتھ خود بھی ایک تھے تو جاسکے تھے۔

دو دھائیوں میں یہ پہلی مرتبہ تھا کہ سری لنکا کے پاس کوئی ایسا ٹیسٹ کھلاڑی نہیں تھا جو بہترین دس ایسے کھلاڑیوں میں فہرست میں ہوتا۔ متیہ مورلی دہرن، لاستھ ملنگا، چمندا واس، کمار سنگا کارا، مہیلا جےوردنے۔۔۔یہ قوم تھی ایسے قابل ذکر کھلاڑیوں کی اور یہ فہرست آگے بڑھتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ کم از کم ابھی کے لیے نہیں۔

سیریز کے آغاز سے قبل ہی سری لنکن کیمپ کو افراتفری نے آن دبوچا۔ قابل ذکر تیز گیند باز لہیرو کمارا کو جو میزبان کے وارم اپ میچوں میں بہترین کھلاڑی ثابت ہوئے تھے کرفیو کی خلاف ورزی پر ٹیم سے نکال دیا گیا تھا۔ سیریز کے دوران انہیں اکیلا دننجایا سے بھی مبینہ غلط باولنگ ایکشن کی وجہ سے کھونا پڑا جبکہ کپتان دنیش چندیمل بھی پہلے ٹیسٹ میں زخمی ہونے کی وجہ سے باہر ہوگئے تھے۔ میدان سے باہر بھی سری لنکا کی کرکٹ کسی اچھی حالت میں نہیں تھی۔ ٹور کے آغاز پر آئی سی سی نے سنتھ جےسوریا پر جو سابق کپتان، اوپنگ بلے باز، ورلڈ کپ فاتح اور سیلیکٹرز کے چیرمین تھے میچ فکسنگ کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ جےسوریا پر آئی سی سی کی تحقیقات میں „جان بوجھ کر یا نہ چاہتے ہوئے” تعاون سے انکار کا الزام بھی تھا۔ اس کے علاوہ ان پر شواہد ”چھپانے، ان میں ردو بدل کرنے یا انہیں تباہ کرنے کا الزام بھی تھا۔”

جےسوریا نے جو ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں سیاست میں بھی قسمت آزمائی۔ یقینا ایک ایسے ملک میں جہاں لوگ اس کھیل کے بارے میں پاگل ہیں کرکٹ کا انتظام اور حکومتی اقتدار آپس میں الجھے ہوئے ہیں۔ جیسے کہ سرسینا کا شروع کیا ہوا بحران مزید پھیلا ایک اور سابق سری لنکن کپتان اور ورلڈ کپ فاتح ارجونا راناٹونگا کو ان کے محافظ کی جانب سے ایک احتجاج کرنے والے کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں بعد میں ضمانت پر رہائی ملی اور یہ واضح کیا کہ ان کے محافظ انہیں ہجوم سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔

راناٹونگا کو جو کبھی ایک سادہ سے کرکٹر تھے صدر سرسینا نے اپنی کابینہ کو برطرف کیا تو وہ بھی بطور وزیر تیل اس عہدے سے ہٹا دیئے گئے۔ سری لنکن کرکٹ بورڈ میں جاری بحران کو مزید خراب کیا جب باولنگ کوچ نوان زویسا پر آئی سی سی نے بدعنوانی کے تین الزامات عائد کر دیئے۔ ان پر ایک بین القوامی میچ میں „فکسنگ یا اس کی کوشش” کا الزام تھا۔ ٹیم کے جنرل مینجر چارتھ سیننائکے پہلے اور دوسرے ٹیسٹ کے دوران ہیڈ کوچ چندیکا ہتھوروسنگا کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے مستعفی ہوگئے۔ جب سری لنکن کرکٹ میں بارش ہوتی ہے تو ژالہ باری ہی ہوتی ہے۔ گزشتہ برس یہ سیریز مون سون میں رکھی گئی کیونکہ ٹیم کو بین القوامی میچ ہی اتنے زیادہ کھیلنے تھے۔

انگلینڈ جیت گیا اور سری لنکا ہار۔ وہ سیریز میں ٹیسٹ کے نو دنوں میں سے آٹھ میں حاوی رہے اور کہیں بھی دنیا کی دوسری بہترین ٹیسٹ ٹیم کا توڑ محسوس نہیں ہوئی۔ انگلینڈ کی سفری تھکان کا مطلب تھا کہ یہ روٹ اور ان کی ٹیم کے لیے مثبت نتیجہ تھا جو گزشتہ تین برسوں میں بیرون ملک، برے صغیر میں چھ اور سری لنکا میں سترہ برسوں سے جیت سے دور رہے تھے۔ یہ میزبانوں کے لیے بڑی شکست تھی۔ انہوں نے گزشتہ تین برسوں میں آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کو مشترکہ سات صفر کے سکور سے ہرایا تھا۔ انگلینڈ کے ساتھ سیریز اچھا مقابلہ ہوتا لیکن یہ ایسا کبھی نہیں محسوس ہوا۔ پارلیمان اور ٹیم کے گرد تمام سیاسی بحرانوں اور اہم کھلاڑیوں کی عدم موجودگی میں کسی اچھے نتیجے کی امید خام خیالی ہی تھی۔

اور پھر ہوائی اڈے کو جاتی بارش سے گیلی ہائی وے پر سرمئی بادلوں میں کڑکتی بجلی نے گاڑیوں کو اپنی ہیڈ لائیٹس آن کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس دارالحکومت کی پرخطر ٹریفک اور میری جانب سے غلط وقت کا انتخاب کولمبو سے نکلنے کے سفر نے پہلے ہی ایک گھنٹہ لے لیا تھا۔ اس دوران منوج کے ساتھ گفتگو توقع سے زیادہ گہری ہوتی گئی۔

ہم نے سیاسی بحران کے بارے میں بات کی۔ اس نے مجھے بتایا کہ ان کے بھائی کو 1989 میں فوج نے غلط جگہ پر درست وقت پر موجود ہونے کی وجہ سے گولی سے زخمی کر دیا تھا۔ وہ بیس کے پیٹھے میں تھا۔ منوج نے مجھے اپنے بیٹے کے بارے میں بتایا جو اٹھارہ ماہ قبل گیارہ سال کی عمر میں ڈینگو بخار کی وجہ سے فوت ہوگیا۔ اس کے مطابق ہسپتال کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ منوج نے مجھ سے دریافت کیا کہ طیارے پر سفر کیسا لگتا ہے۔ ”میں نے کبھی فضائی سفر نہیں کیا ہے۔ میں سری لنکا سے کبھی باہر نہیں گیا ہوں۔”

ٹیسٹ سیریز کی کوریج کے دوران اور لوگوں سے گفتگو اور سیاسی بحران کے بارے میں پڑھ کر اندازہ ہوا کہ یہ جزیرہ متوازی ٹریکس پر چل رہا ہے۔ یہاں اشرفیہ ہے جو راج دور کی سفید عمارتوں میں طاقت اور اقتدار کے لیے لڑتی ہے اور پھر یہاں کے عام شہری ہیں جن کی روزمرہ کی زندگی متاثر ہو رہی ہے گرتے ہوئے روپے، سیاحوں کی جانب سے اپنے ٹور منسوخ کرنے اور مرکزی بینک کا اقتصادی خلا جس کی کوئی وضاحت نہیں دے سکتا ہے۔

منوج سیاست کے بارے میں بات کرکے مسرت محسوس کر رہا تھا، لیکن جب ہم اس افسردہ نتیجے پر پہنچے کہ کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ مستقبل کیسا ہوگا اس نے ایسی بات کی جس نے مجھے حیران کر دیا۔ ”سیاستدان اچھے نہیں ہیں لیکن اگر ہم کولمبو میں جیتے ہیں تو میں خوش ہوں گا۔”

یہ وہ موقع نہیں تھا جو کرکٹ کی طاقت کا اظہار تھا لیکن شاید کھیل کے ذریعے غم بھلانے کا سلسلہ تھا۔ سری لنکا میں صرف ایک کھیل ہے جو معنی رکھتا ہے اور حالانکہ اس سیریز کی ہار میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جو ایک چھوٹی سے جیت کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ ”میرے بیٹے کو کرکٹ سے پیار تھا۔ میں اسے اس میچ پر لیجاتا۔”

اس کے ردعمل میں آپ بہت کچھ کہہ سکتے ہیں۔ ایک درد جو یادوں میں پھنسا رہتا ہے۔ جب کرکٹ اچانک بےمعنی ہوجاتی ہے تو یہ کئی کے لیے یہ دنیا کا سب کچھ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل