سرکاری افسران کے خلاف اکسانے کا مقدمہ: صحافی خالد جمیل کا ریمانڈ

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سرکاری افسران کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے مقدمے میں اے بی این نیوز چینل سے منسلک صحافی خالد جمیل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا۔

 صحافی خالد جمیل اوصاف براڈکاسٹ نیٹ ورک (اے بی این) چینل سے بطور بیورو چیف، اسلام آباد منسلک ہیں (خالد جمیل فیس بک اکاؤنٹ)

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے جمعے کو سرکاری افسران کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے مقدمے میں صحافی خالد جمیل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا۔

 صحافی خالد جمیل اوصاف براڈکاسٹ نیٹ ورک (اے بی این) چینل سے بطور بیورو چیف، اسلام آباد منسلک ہیں، جنہیں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے جمعرات کی رات گرفتار کیا تھا۔

 انہیں جمعے کو اسلام آباد کچہری میں جوڈیشل مجسٹریٹ شبیر بھٹی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

سماعت کے آغاز میں ایف آئی اے نے خالد جمیل کے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، جس کی مخالفت ان کے وکلا جہانگیر جدون اور نوید ملک نے کی۔

وکیل نوید ملک نے موقف اپنایا کہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے کا حق ہر شہری کو حاصل ہے جبکہ دوسرے وکیل جہانگیر جدون نے موقف اختیار کیا کہ ایف آئی اے نے اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کی اور خالد جمیل کو گرفتار کر کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’صحافی کا جسمانی ریمانڈ نہیں بنتا، کیس سے ڈسچارج کیا جائے۔‘

عدالت نے بعد ازاں صحافی خالد جمیل کے جسمانی ریمانڈ پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا اور صحافی کو دو روز بعد یعنی 24 ستمبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکام دیا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے ایف آئی اے کے ترجمان سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش، لیکن اس خبر کی اشاعت تک ان کا موقف نہیں مل سکا۔

خالد جمیل کی گرفتاری کے خلاف صحافی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں اور ان کی گرفتاری کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یوجے) نے آج احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا ہے۔

’خوشی ہے کہ خالد جمیل کم از کم نا معلوم نہیں ہوئے‘

خالد جمیل کی گرفتاری کے معاملے پر اسلام آباد پریس کلب کے صدر انور رضا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں قانون موجود ہے، قانون کے تحت کارروائی ضرور کریں لیکن کسی کی تضحیک نہ کریں۔ ’خالد جمیل کوئی دہشت گرد نہیں، ان کی جو تصویر جاری کی گئی، اس میں ان کا مکمل پتہ بھی دیا گیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’خدانخواستہ اگر اس کے بعد ان کے گھر یا اہل خانہ پر حملہ یا نا خوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ ہمیں یہ خوشی ہے کہ کم از کم وہ نامعلوم نہیں ہوئے معلوم ہیں، ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلہ دیا تھا کہ پیکا قانون کے تحت کسی کی گرفتاری سے قبل پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس یا نیشنل پریس کلب کو آگاہ کرنا لازمی ہوگا۔

تاہم انور رضا نے کہا کہ ایف آئی اے نے خالد جمیل کی گرفتاری سے متعلق ان دونوں صحافتی تنظیموں کو آگاہ نہیں کیا۔ ’ایسا کرنا عدالتی فیصلے اور عدالت کی توہین ہے۔ ہم اس حوالے سے قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں اور نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی سے بات ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان