جنگ آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ، جن کی پھانسی کے بعد ورثا کو لاش نہ دی گئی

بھگت سنگھ کے چاہنے والے آج ان کا 116 وں جنم دن منا رہے ہیں۔ اس موقعے پر ان کی چھوٹی بہن بی بی امر کنور کے بیٹے ڈاکٹر جگموہن سنگھ سے انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی گفتگو

جنگ آزادی ہند کے ہیرو بھگت سنگھ کے چاہنے والے آج 28 ستمبر کو ان کا 116 وں جنم دن منا رہے ہیں۔

اس موقعے پر انڈپینڈنٹ اردو نے بھگت سنگھ کی چھوٹی بہن بی بی امر کنور کے بیٹے ڈاکٹر جگموہن سنگھ سے خصوصی گفتگو کرکے ان کی یادیں تازہ کی ہیں۔

ڈاکٹر جگموہن سنگھ 1944 میں لائل پور کے گاؤں چک 206 سیال والا میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ تقسیم کے بعد انڈیا چلے گئے اور حال ہی میں پنجاب زرعی یونیورسٹی، لدھیانہ سے ریٹائر ہوئے ہیں۔

وہ جنگ آزادی کے دوران ایک سال کی عمر میں اپنی والدہ کے ساتھ جیل بھی کاٹ چکے ہیں۔ ان کی والدہ بی بی امر کنور کو 1945 میں انگریز سرکار کے خلاف تقریر کرنے کے جرم میں ڈیڑھ سال قید کی سزا بھی ہوئی تھی۔

ڈاکٹر جگموہن سنگھ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ان کی والدہ کی یہ خواہش تھی کہ وہ بھگت سنگھ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانیں۔

’اس طرح میری زندگی کا سفر شروع ہوا۔ میں نے ان (بھگت سنگھ) کے بارے میں، ان کے ساتھیوں کے بارے میں اور پھر آزادی کی پوری تحریک کے بارے میں انٹرویوز کیے، دستاویزات اکٹھی کیں۔ پہلی مرتبہ 1984 میں ہم نے شہید بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں سے متعلق دستاویزات کو ایک جگہ پر اکٹھا کرکے کتاب کی شکل میں شائع کیا۔ پہلے یہ کتاب پنجابی میں شائع ہوئی، پھر ہندی میں شائع ہوئی اور پھر ان سے متعلق انگلش مضامین کو ایک ویب سائٹ شہید بھگت سنگھ ڈاٹ او آر جی پر پبلش کیا گیا۔‘

ڈاکٹر جگموہن سنگھ نے بھگت سنگھ کے بچپن سے متعلق یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک مرتبہ 10، 12 سال کی عمر میں جلیانوالہ باغ گئے تھے اور وہاں سے خون میں بھیگی ہوئی مٹی لے کر آئے تھے۔

’میری والدہ نے ان سے پوچھا کہ میرا بھائی آگیا ہے، میں نے آپ کے لیے پھل رکھے ہوئے ہیں، لیکن وہ کہتے کہ میرا دل آج بہت اداس ہے کہ بدیشی اتنا ظالم ہو سکتا ہے کہ جہاں سب مذہب کے ماننے والے اور ہر ذات کے لوگ اکٹھے ہیں اور ان پر اتنا ظلم کیا گیا ہے۔ یہ ان کے دل میں پہلا سبق تھا کہ جو بدیشی ہے وہ صرف لوٹتا ہی نہیں ہے بلکہ وہ ہمیں اکٹھے دیکھنے سے بھی خوف کھاتا ہے۔‘

ڈاکٹر جگموہن سنگھ کے مطابق بھگت سنگھ نے اپنے دادا سے جو پہلا سبق سیکھا وہ یہ تھا کہ کسی بات کو صرف سن کر نہیں ماننا ہے بلکہ پوری تحقیق کرکے اس کی سچائی کو جاننے کی کوشش کرنی ہے۔

’جب انہوں نے 1924 میں نوجوان بھارت سبھا بنائی تو انہوں نے یہی کہا کہ اگر ہم نے انگریز کو شکست دینی ہے یا آزادی حاصل کرنی ہے تو ہمیں اپنی کمزوریوں کے خلاف لڑنا ہوگا اور وہ کمزوریاں یہ ہیں کہ ہم دھرم کے جنون میں ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں، ذات پات کی بنیاد پر سماج میں تقسیم پیدا کرتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ بھگت سنگھ کو پھانسی دینے کے لیے 24 مارچ 1931 کی صبح کا وقت مقرر کیا گیا تھا لیکن انہیں پھانسی ایک دن پہلے شام کو ہی دے دی گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس دن شام کو ایک بڑی کانفرنس ہو رہی تھی۔ ہماری نانی جی نے ہمیں بتایا کہ وہ وہاں تقریریں سن رہی تھیں اور جو ڈپٹی جیلر تھے انہوں نے (بھگت سنگھ کے) والد کو آ کر کان میں بتا دیا کہ پھانسی ہو گئی ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت بھگت سنگھ کے والد سردار کشن سنگھ تقریر کر رہے تھے۔

’انہیں ان لوگوں نے کہا کہ ہم چلتے ہیں ان کی لاشیں لینے کے لیے۔ وہ جیل کی طرف چل پڑے، دیگر لوگ بھی ان کے ساتھ تھے۔ یہ شام سات بجے کے بعد کا وقت تھا۔ میری والدہ بھی وہیں تھیں۔ سب لوگ وہاں گئے لیکن ان کی لاشیں انہیں نہیں دی گئیں بلکہ جیل کے پیچھے سے انہیں چوری سے نکال کر لے گئے۔‘

ڈاکٹر جگموہن کے مطابق اس کے بعد ان کی والدہ اور پانچ دیگر خواتین نے ایک سکول کی بس میں پولیس کا پیچھا کیا اور جب وہ فیروز پور پہنچے تو صبح تین، چار بجے کا وقت ہو چکا  تھا۔

’پولیس نے ان کی ادھ جلی لاشیں دریا میں پھینک دیں تاکہ ان کے نشان ختم کیے جا سکیں لیکن پھر بھی وہاں پر ان کے خون سے بھیگے ہوئے پتھر تھے، ان کی کچھ ہڈیاں تھیں کیونکہ ان تینوں کو شاید ایک ہی چتا میں ڈالا گیا تھا اور شاید چتا میں ڈالنے کے لیے ان کے جسموں کو کاٹا بھی گیا تھا، جس کی وجہ سے خون وہاں پر تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ اور دیگر لوگ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں سکھ دیو اور راج گروو کی لاشیں لے کر واپس آئے اور 24 مارچ کو تین استھیاں بنا کر انہیں دریائے راوی کے کنارے عوامی خراج عقیدت پیش کرکے دوبارہ الوداع کہا گیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ بھگت سنگھ نے اپنی زندگی میں ہی اپنی والدہ کو اس صورت حال کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنے کی غرض سے ایک بات کہی تھی کہ ’ماں شاید وہ میری لاش نہ دیں لیکن اگر مل بھی گئی تو تم نے نہیں آنا کیونکہ تم رو دو گی اور اگر تم روئیں تو لوگ تمہاری طرف دیکھیں گے اور مجھے بھول جائیں گے۔‘

ڈاکٹر جگموہن بتاتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد ان کی نانی نے ہمیشہ یہ کہا کہ میرا لڑکا اکیلا کھڑا اچھا نہیں لگتا، وہ اپنے ساتھیوں کے بیچ میں ہی کھڑا اچھا لگتا ہے۔

’وہ ان کو اکٹھے ہی یاد کرنے کا پیغام دیتی تھیں اور ان کی یاد میں تینوں کی نشانیاں سنبھال کر رکھی ہوئی تھیں۔ اس میں سے میری والدہ نے بھگت سنگھ کی ایک قمیص بطور یادگار لی تھی۔ اسی طرح ان کی بہت ہی نایاب چِٹھیاں  ہیں۔ خاص طور پر اپنے دادا جی کو وہ اردو میں ہی چِھٹی لکھتے تھے۔ اپنے چھوٹے بھائی کلتار سنگھ کے نام بھی ان کی آخری چِھٹی اردو میں ہے۔‘

ڈاکٹر جگموہن نے بتایا کہ وہ شدید خواہش اور متعدد مرتبہ کوشش کرنے کے باوجود بھی ابھی تک بھگت سنگھ کے گاؤں 105 چک نہیں جا سکے۔

’میرے بڑے بھائی ایک دفعہ 1952 میں گاؤں تک پہنچ گئے تھے کیونکہ اس وقت میچ ہوا تھا انڈیا اور پاکستان کا اور بارڈر سے لوگ سائیکل پر بھی آتے جاتے تھے۔ کوئی پابندی نہیں تھی جیسے آج پابندی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ ایک مرتبہ بھگت سنگھ کی جنم بھومی اور ان کا سکول ضرور دیکھیں۔

’وہاں جانے کی تمنا یقیناً ہے، کوشش کرتے رہتے ہیں، کریں گے، موقع ملا تو ضرور آئیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ