رائے احمد خان کھرل: جنگ آزادی کے ہیرو جنہیں فراموش کر دیا گیا

رائے احمد خان کھرل کے پڑپوتے رائے علی اقدس خان کھرل کا کہنا ہے کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ لاہور میوزیم میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں جو دکھائی جا سکے کہ یہ رائے احمد خان کھرل کی ہے۔

رائے احمد خان کھرل ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے پنجاب پر قبضے کے بعد 1852 میں نئے بنائے گئے ضلع گوگیرہ سے چند کلومیٹر دور دریائے راوی کی دوسری طرف واقع جھامرہ کے سردار تھے (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے خلاف مقامی سپاہیوں کی جانب سے 1857 میں لڑی جانے والی جنگ آزادی کے دوران پنجاب میں ہونے والی بغاوت کی قیادت رائے احمد خان کھرل نے کی تھی، جنہیں 21 ستمبر 1857 کو قتل کر دیا گیا تھا۔

وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے پنجاب پر قبضے کے بعد 1852 میں نئے بنائے گئے ضلع گوگیرہ سے چند کلومیٹر دور دریائے راوی کی دوسری طرف واقع جھامرہ کے سردار تھے۔

اب گوگیرہ کا علاقہ ضلع اوکاڑہ جبکہ جھامرہ فیصل آباد کی تحصیل تاندلیانوالہ کا حصہ ہے۔

روایت ہے کہ میرٹھ اور دلی میں مقامی سپاہیوں کی انگریزوں کے خلاف جاری بغاوت کچلنے کے لیے گوگیرہ میں تعینات اس وقت کے ایڈیشنل اسٹنٹ کمشنر لیوپولڈ فٹز جیرالڈ برکلے نے مقامی قبائل کے سرداروں سے گھوڑے اور جوان طلب کیے تو رائے احمد خان کھرل نے جواب دیا کہ ’ہم اپنا گھوڑا، عورت اور زمین کسی کے حوالے نہیں کرتے۔‘

بغاوت سے متعلق انگریز انتظامیہ کی رپورٹس پر مبنی تاریخی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بغاوت کمالیہ، پنڈی شیخ موسیٰ، سید والا، ہڑپہ، چیچہ وطنی، تلمبہ، سرائے سدھو، شور کوٹ، جملیرہ، ساھوکا، قبولہ اور پاک پتن کے علاقوں تک پھیل گئی تھی اور انگریزوں کو جھنگ، لیہ، گوجرانوالا اور لاہور سے کئی بار کمک ملنے کے باوجود مزاحمت تب تک ختم نہیں ہوئی جب تک کہ رائے احمد خان کھرل کو قتل نہ کر دیا گیا۔

اس حوالے سے رائے احمد خان کھرل کے پڑپوتے رائے علی اقدس خان کھرل نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’رائے سرفراز کمالیہ والے نے غداری کی اور انہوں نے انگریز کو بتایا کہ رائے احمد خان دریا کی دوسری طرف ساہیوال گیا ہوا ہے اور واپسی پر نورے والی ڈل کے پاس سے دریا عبور کرے گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ جب انگریز ڈپٹی کمشنر برکلے کو یہ پتہ چل گیا کہ رائے احمد خان نے واپسی پر کہاں سے دریا عبور کرنا ہے تو اس نے اپنے فوجی وہاں چھپا دیے۔

’اس دوران جب رائے احمد خان واپس جھامرہ جانے کے لیے اپنے ساتھیوں سمیت دریا پار کرنے کے لیے پہنچے تو یک دم سپاہیوں نے انہیں گھیر لیا اور فائرنگ شروع کر دی۔‘

برکلے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ رائے احمد خان کو تلاش کرتے ہوئے دریا کے کنارے پہنچا تو وہ نماز پڑھ رہے تھے، جس پر انہیں گولی مار کر قتل کر دیا گیا اور پھر وہ ان کا سر قلم کر کے ساتھ لے گیا۔

بعد ازاں رائے احمد خان کھرل کا سر گوگیرہ کی جیل کے دروازے پر لٹکا دیا گیا۔

رائے علی اسجد کے مطابق جیل میں سپاہیوں کے لیے کھانا تیار کرنے والے ایک خانساماں کا تعلق جھامرہ سے تھا۔

’اس کو غیرت آئی اور اس نے سوچا کہ میرے سردار کا سر یہاں لٹک رہا ہے۔ رات کو وہ اٹھا اور اس نے رائے احمد خان کا سر مبارک چوری کر لیا اور کپڑے میں لپیٹ کر وہاں سے بھاگ آیا اور یہاں آکر ان کے بیٹے رائے محمد خان کو دے دیا کہ یہ آپ کے والد صاحب کا سر مبارک ہے اس کو دفنا لیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس وقت رائے احمد خان کے سر کو ان کی قبر سے تھوڑا ہٹ کر دفن کر دیا گیا اور اس جگہ پر کوئی نشانی نہیں لگائی گئی تھی تاکہ انگریز دوبارہ سر نکال کر اس کی بے حرمتی نہ کرسکیں۔

بعد ازاں جب 1968 میں رائے احمد خان کھرل کے مزار کی تعمیر کے لیے بنیادوں کی کھدائی کی جا رہی تھی تو ایک جگہ سے یہ سر برآمد ہو گیا۔

’میں وہ خوش نصیب ہوں جس نے 110 سال بعد ان کے سر مبارک کی زیارت کی ہے۔ جس طرح اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ شہید کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہے۔ اسی طرح ہم نے ان کے سر کو زندہ حالت میں ہی دیکھا ہے یعنی ان کے بال جھڑے ہوئے نہیں تھے۔ ان کی آنکھیں جھڑی نہیں تھیں۔ ان کے چہرے کا گوشت کھایا ہوا نہیں تھا، اندر کو دھنسا ہوا نہیں تھا۔ ان کے بال کافی لمبے تھے اور انہوں نے مینڈھیاں رکھی ہوئی تھیں، مہندی لگی ہوئی ہے، داڑھی مبارک بھی ہے اور اس پر بھی مہندی لگی ہوئی ہے۔ ان کی مونچھوں پر بھی مہندی لگی ہوئی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب رائے احمد خان کو شہید کیا گیا تو اس وقت ان کی عمر 83 برس تھی اور ایک 83 سال کے آدمی کے لیے گھوڑے پر سوار ہو کر جنگ کرنا بڑا معنی رکھتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رائے علی اقدس کے مطابق رائے احمد خان کھرل کو قتل کرنے کے بعد انگریزوں نے جھامرے کو آگ لگا دی تھی اور ان کے گھر کو منہدم کر دیا تھا۔

’ان کے گھر کی ایک، دو دیواریں ہی کھڑی رہ گئی تھیں۔ اس کے بعد جب دوبارہ حویلی کی شکل بنی تو اس کو تبدیل کر دیا گیا لیکن ایک عمارت ہے جو تقریباً ان کے دور میں ہی بنی تھی اور وہ ابھی اسی حالت میں موجود ہے۔‘

فیصل آباد کی ضلعی انتظامیہ نے 2015 میں رائے احمد خان کھرل کے گھر کو قومی ورثہ قرار دے کر اس کی بحالی کا منصوبہ شروع کیا تھا جسے بعد میں فنڈز کی عدم فراہمی کے باعث ادھورا چھوڑ دیا گیا۔

اس بارے میں سوال کے جواب میں رائے علی اقدس کا کہنا تھا کہ ’جو حکومت نے کیا تھا وہ بس برائے نام ہی تھا۔ صرف سولنگ لگا دیا گیا اور یہاں ڈیرے پر ایک کنواں ہے، جس کو باہر سے تھوڑا تھوڑا مرمت کر دیا گیا، اللہ اللہ خیر صلا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں جو آدمی بھی اپنی قوم یا ملک کے لیے کوئی اچھا کام کرتا ہے تو اس کے مجسمے بنائے جاتے ہیں، اس کے نام پر شہر آباد کیے جاتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رائے احمد خان کھرل کو فراموش کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ ’کیا تاندلیانوالہ احمد پور یا احمد نگر نہیں بن سکتا؟ جڑانوالہ احمد پور، احمد آباد یا احمد نگر نہیں بن سکتا؟ جنہوں نے اس دھرتی کی خاطر خون دیا کیا ان کے نام صرف چوکوں کے لیے ہی رہ گئے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ گوگیرہ کی جس عمارت میں برکلے کچہری لگاتے تھے، 1865 میں اسے پرائمری سکول بنا دیا گیا جبکہ 1959 میں اسے ہائی سکول کا درجہ دیا گیا اور 1967 میں اس درس گاہ کا نام احمد خان کھرل ڈسٹرکٹ کونسل ہائی سکول گوگیرہ رکھ  دیا گیا لیکن 1985 میں سکول کا نام دوبارہ تبدیل کر کے گورنمنٹ ہائی سکول فار بوائز صدر گوگیرہ کر دیا گیا۔

رائے علی اقدس کے مطابق ’پہلے ان (رائے احمد خان کھرل) کا ذکر نصاب میں شامل تھا، چہارم کلاس کی کتاب میں ان کا ایک باب تھا لیکن بعد میں وہ بھی نکال دیا گیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ احمد خان کھرل کے مزار کی تعمیر بھی 1968 میں ان کے پوتے رائے علی محمد خان نے ذاتی خرچ سے شروع کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ لاہور میوزیم میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں جو دکھائی جا سکے کہ یہ رائے احمد خان کھرل کی ہے لیکن لندن میوزیم میں ان کی ایک  تلوار اور سر پر ڈالنے والا آہنی خود موجود ہے، جو انگریز انہیں قتل کرنے کے بعد ساتھ لے گئے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ