امریکی ریاست میری لینڈ میں یو ایف اوز کی تقریباً دو ہزار رپورٹس

امریکہ میں سائنس دان ناسا، حکومت اور فوج سے آسمان میں پراسرار اشیا کے اڑنے سے متعلق مزید معلومات افشا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

یوفولسٹ سٹیون گریر 12 جون، 2023 کو واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران یو ایف او اور یو اے پی پر  اپنی تحقیق سے متعلق گفتگو کر رہے ہیں (اے ایف پی/ کیون ڈیٹش)

امریکہ میں نیشنل یو ایف او رپورٹنگ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق ریاست میری لینڈ کے اوپر اڑنے والی نامعلوم اشیا کو دیکھنے کے بارے میں لوگوں نے 1923 رپورٹس جمع کروائی ہیں۔ رپورٹوں کی یہ تعداد بہت بڑی ہے۔

یو ایف اوز یا جنہیں ناسا یو اے پیز کہتا ہے، نامعلوم غیر معمولی مظاہر ہیں جو مختلف شکلوں میں دیکھے گئے۔ ان میں دائرے، انڈے، مثلث اور ہیرے جیسی اشکال شامل ہیں۔

دیگر رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے یو اے پیز کو ایسے دیکھا جیسے وہ روشنیاں یا چمک خارج کر رہے ہوں۔

این یو ایف او آر سی کے مطابق 1946 میں اعداد و شمار جمع کرنے کے آغاز کے بعد سب سے زیادہ یو ایف او دیکھنے والی امریکی ریاستوں میں میری لینڈ 25 ویں نمبر پر ہے۔

ادارے کی ویب سائٹ پر موجود 16084 رپورٹوں کے ساتھ کیلی فورنیا سب سے اوپر ہے، جو گذشتہ دہائی میں اڑتی ہوئی نامعلوم اشیا دیکھنے کے واقعات میں زبردست اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔

اگرچہ ممکنہ یو ایف او دیکھنے کے منظر نے طویل عرصے سے امریکہ بھر میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے، لیکن شہریوں کی طرف سے دی جانے والی اطلاعات میں اضافہ زیادہ تازہ ہے جس کا سہرا سوشل میڈیا پر اس موضوع پر بڑھتے ہوئے اظہار خیال کے سر ہے۔

ستمبر میں میکسیکو کی کانگریس میں دکھائے جانے والی عجیب و غریب ’خلائی مخلوق کی لاشوں کی وجہ سے بھی یو اے پی عوام کی نظروں میں دلچسپی کا مرکز بنی۔ یہ ایسی بات تھی جس پر سائنسی انداز میں سوچنے والے زیادہ تر لوگوں نے شک کا اظہار کیا۔

اس سے قبل کانگریس نے 26 جولائی کو ایک سماعت کی جس میں تین سابق فوجی اہلکاروں نے گواہی دی کہ ان کے پاس یو اے پیز کے بارے میں تازہ معلومات ہیں۔

انہوں نے ممکنہ سکیورٹی خطرات کے بارے میں بھی بات کی جو نامعلوم اشیا سے لاحق ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے امریکی حکام سے کہا کہ وہ یو اے پی سے متعلق رپورٹوں کے بارے میں ان کی مبینہ معلومات پر زیادہ ’شفافیت‘ سے کام لیں۔

بعد ازاں 14 ستمبر کو خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کی نامعلوم اشیا پر تحقیق کرنے والی ٹیم نے 36 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی، جس میں لوگوں کی جانب سے رپورٹ کیے گئے مختلف واقعات پر زیادہ گہری تحقیق پر زور دیا گیا ہے۔

ناسا کے منتظم بل نیلسن نے اس تحقیق کے اعلان کے موقعے پر کہا کہ وہ ’یو اے پی کی بحث کو سنسنی خیزی سے سائنس کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے۔ ناسا کی انڈپینڈنٹ سٹڈی ٹیم کو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یو اے پیز کا ماخذ غیر زمینی ہے لیکن ہم نہیں جانتے کہ یہ یو اے پیز کیا ہیں؟‘

ناسا کا کہنا ہے کہ اگرچہ کچھ رپورٹس میں، جنہیں نامعلوم اشیا کہا گیا، وہ غبارے، ہوائی جہاز یا قدرتی مظاہر ثابت ہوئے لیکن رپورٹس میں کوئی تفصیلی ڈیٹا موجود نہیں جس کا وہ یو اے پی کی تحقیقات میں مدد کے لیے حوالہ دے سکیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

این یو ایف او آر سی (نیشنل یو ایف او رپورٹنگ سینٹر) کے ڈائریکٹر پیٹر ڈیون پورٹ نے میری لینڈ میں 1923 رپورٹوں کی تصدیق کرتے ہوئے سی بی ایس ٹیلی ویژن کو بتایا کہ ’یہ میرے لیے خوشی کی بات ہے کہ اب بہت سارے لوگ آگے آرہے ہیں۔ ہمیں صرف چھ ماہ یا ایک سال پہلے کے مقابلے میں کافی زیادہ رپورٹس مل رہی ہیں۔‘

 این یو ایف او آر سی کو یو اے پیز کے بارے میں رپورٹوں کو سرکاری طور پر تسلیم کیے جانے میں اضافے کی امید ہے لیکن انہیں خدشہ ہے کہ امریکی حکومت اب بھی تفصیلات کو خفیہ رکھ سکتی ہے۔

ڈیون پورٹ کا کہنا تھا کہ ’میں نہیں جانتا کہ ہمارے لیے مستقبل کیا ہے لیکن میرا حوصلہ بڑھا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ آگے آرہے ہیں اور حکومت یو ایف او کے اس مظہر کو تسلیم کرتی ہے جو ان کی توجہ کے قابل ہے۔‘

این یو ایف او آر سی کے چیف ٹیکنالوجی آفیسر کرسچن سٹیپین نے کہا کہ اگرچہ ان کے زیادہ تر یو اے پی نظاروں کو سائنسی طور پر ناقابل وضاحت قرار دے کر مسترد کیا جاسکتا ہے لیکن اب بھی ایسی رپورٹس موجود ہیں جو کسی ناقابل بیان چیز کو بیان کرتی ہیں۔

سٹیپین نے یو ایس اے ٹوڈے کو دیے گئے ایک بیان میں لکھا کہ ’بہت سے ایسے واقعات ہیں جن کی وضاحت قدرتی یا انسان کی بنائی ہوئی چیز کے طور پر نہیں کی جا سکتی۔

’گذشتہ 70 سال کے شواہد اس بات کی نشاندہی کرنے میں ناقابل تردید ہیں کہ غیر معمولی جہاز ہماری فضائی حدود میں اپنی مرضی سے پرواز کر رہے ہیں۔ عام فہم کہتی ہے کہ یہ حکومت اور عوام کے لیے انتہائی دلچسپی کا حامل ہونا چاہیے۔‘

سٹیپین نے یہ بھی کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ حکومت یو اے پی کے مطالعے میں دلچسپی سے آگاہ ہے لیکن اس نے ’تفصیلات کو عوام سے چھپانے‘ کا انتخاب کیا۔

ان کے بقول: ’کانگریس میں حالیہ انکشافات کی سماعتوں نے یو ایف او برادری کے اندر بہت سی امید پیدا کی ہے کہ یہ رازداری آخر کار ختم ہو سکتی ہے لیکن کیا کوئی سنجیدہ انکشاف ہوتا ہے؟ یہ دیکھنا باقی ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس