کیا اس تصویر میں کوئی خلائی مخلوق آرام کر رہی ہے؟

یہ کوئی سائنسی پیش رفت یا بڑی تلاش نہیں۔ بلکہ یہ آنکھ کا ایک سراب ہے جسے کئی بار استعمال کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں سرخ سیارے پر زندگی کے امکان کی خوشی پیدا کی جا سکے۔

اس فرضی منظر کا آغاز ایک بلاگ، یو ایف او سائٹنگز ڈیلی سے ہوا، جس کو سکاٹ سی وارنگ نے لکھا ہے  (سکاٹ سی وارنگ)

مریخ سے ملنے والی تصاویر میں ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ شاید چٹان کے ایک ٹکڑے پر ایک شخص پرسکون انداز میں لیٹا ہوا ہے، لیکن یقینی طور پر ایسا نہیں ہے۔

یہ کوئی سائنسی پیش رفت یا بڑی تلاش نہیں۔ بلکہ یہ آنکھ کا ایک سراب ہے جسے کئی بار استعمال کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں سرخ سیارے پر زندگی کے امکان کی خوشی پیدا کی جا سکے۔

اس فرضی منظر کا آغاز ایک بلاگ، یو ایف او سائٹنگز ڈیلی سے ہوا، جس کو سکاٹ سی وارنگ نے لکھا ہے۔

لیٹے ہوئے انسان کے مبینہ منظر کی قیسا آرائیاں بلاگ یو ایف او سائٹنگز ڈیلی پر شروع ہوا جسے سکاٹ سی وارنگ لکھتے ہیں۔ انہوں نے مریخ پر موجود روور سے گذشتہ سال موصول ہونے والی ایک بڑی تصویر کا ایک حصہ نکال کر دعویٰ کیا کہ اس میں ایک چٹان پر ایک شخص لیٹا ہوا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ اس پوز کی طرح ہے جو فلم ’ٹائٹینک‘ میں کیٹ ونسلیٹ نے اس وقت اپنایا ہوا تھا جب ان کا سکیچ بنایا جا رہا ہے۔

سکاٹ سی وارنگ نے اپنے بلاگ پر ایک پوسٹ میں لکھا: ’یہاں ہر کوئی جانتا ہے کہ مجھے ناسا کی تصاویر ٹٹولنا پسند ہے۔ تو میں نے کچھ منفرد دیکھا... ایسا کچھ جو کہ [مریخ پر] ذہین حیات کا 100 فیصد ثبوت ہے۔ ایک شخص ہے جو لیٹ کر محفوظ فاصلے سے ناسا کی مریخ روور کو  دیکھ رہا ہے۔‘

انہوں نے مزید لکھا: ’وہ شخص تقریبا ایک فٹ (0.3 میٹر) لمبا، اور لیٹا ہوا ہے۔ گلابی سینہ، گردن اور چہرہ، سرخ بال، سیاہ سوٹ پہنے ہوئے، لیکن ایک کندھے پر ایک سرمئی چیز ہے... کسی قسم کے بیک پیک کی طرح لگتا ہے۔ یہاں تک کہ اس شخص کے پیچھے پاؤں کے نشان بھی ہیں جو اس مقام تک جاتے ہیں جہاں وہ لیٹا ہوا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن اگرچہ یہ مکمل یقین سے کہنا ناممکن ہے کہ مریخ کی روور نے کسی خلائی مخلوق کو نہیں دیکھا ہے، لیکن یہ تصویر خلائی زندگی کے سو فیصد ثبوت سے بہت دور ہے۔ درحقیقت، یہ تقریباً یقینی طور پر صرف آنکھ کا دھوکہ ہے۔

اس مظہر کو ’پیری ڈولیا‘ کہا جاتا ہے، جس کی وجہ سے انسان ان اشیا میں کچھ معنی خیز چیز دیکھنے کا رجحان رکھتے ہیں جن میں درحقیقت کچھ ایسا ہوتا نہیں۔ لوگوں میں سب سے آسان اور غیر متعلقہ چیزوں میں بھی چہرے یا دیگر اشیا دیکھنے کا رجحان ہوتا ہے، چاہے وہ زمین پر ہوں یا کہیں اور۔

اس سے مطابقت رکھتا ایک اور خیال میمیٹولیتھس کا ہے۔ یہ خاص طور پر چٹانوں کی تشکیل کے متعلق ہے جو کچھ اور نظر آتی ہیں۔ کچھ ایسا جو سادہ لگتا ہے لیکن حالیہ دنوں میں کچھ لوگوں کے لیے ایک مقبول تفریح بن گیا ہے۔

پیری ڈولیا اور میمیٹولیتھ خاص طور پر دوسرے سیاروں پر موجود ہیں اور ’چاند میں انسان‘ اس کی سب سے مشہور مثال ہے۔ 

غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ روورز کے ذریعے دریافت کی جانے والی اجنبی دنیایں اتنی تعداد میں مختلف اشیا دکھاتی ہیں، مختلف زاویوں سے لی گئی تصاویر میں امکان ہوتا ہے ہر ایک میں کوئی نہ کوئی ایسی چیز مل سکتی ہے جو انسان کی بنائی ہوئی لگتی ہو۔

یہ سمجھنے کے لیے کہ کیسے سادہ سی چیزوں میں بھی کچھ دلچسپ نظر آسکتا ہے، اس مثال لے لیتے ہیں۔ اس ماحول پر واپس جاتے ہیں جہاں یہ تصویر لی گئی۔ 

یہ تصویر، جس کو گیگا پین میں آن لائن دیکھا جا سکتا ہے اور جسے نیول تھامپسن نے تخلیق کیا ہے، بہت بڑی ہے، جس میں چٹانوں کا ایک وسیع سلسلہ ہے، جس میں سے ہر ایک ایسی چیز کو تلاش کرنے کا موقع ہے جسے دلچسپ سمجھا جاسکتا ہے اور ایسی سرخیوں کے ساتھ جن سے ایسا لگے کہ یہ سراب کے علاوہ اور کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

اس رجحان کی وجہ سے لوگوں کی ذاتی طور پر بنائی ہوئی ایک صنعت پیدا ہوئی ہے جو دوسرے سیاروں سے غیر دلچسپ تصاویر کے اندر اجنبی یا دیگر دلچسپ اشیا تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ ان دعوؤں کو، چاہے وہ حقیقی طور پر کیے گئے ہوں یا نہ کیے گئے ہوں، اکثر مختلف خبروں کی ویب سائٹوں پر فروغ دیا جاتا ہے۔

شاید اس طرح کی سب سے دلچسپ تلاش دسمبر میں سامنے آئی جب چین کے روور کو چاند پر ایک ’پراسرار جھونپڑی‘ نظر آئی۔ چاند کی دوسری سمت جب اس کو پہاڑ کی چوٹی پر دیکھا گیا تو پوری دنیا کی توجہ اس کی جانب مبذول ہوئی۔

روور کو اس چیز کے قریب پہنچنے اور یہ معلوم کرنے میں کئی دن لگے کہ یہ کیا ہے - اور اس سے بھی زیادہ وقت ان پیغامات کو واپس بھیجنے میں لگا، کیونکہ چاند کے اس خطے سے زمین کے ساتھ مواصلات میں مشکلات تھیں۔

لیکن جب تصاویر واپس آئیں تو وہ ہر اس شخص کے لیے مایوس کن تھیں جو یہ سمجھتا تھا کہ جھونپڑی ایک گھر ہو سکتی ہے۔

درحقیقت یہ چٹان کا ایک حصہ تھا جسے سائنس دانوں نے ’جیڈ ریبٹ‘ کا نام دیا تھا، کیونکہ قریب سے یہ گھر سے زیادہ جانور کی طرح دکھتا تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس