تین ہزار سال پرانا تیر جو ’ایلین‘ لوہے سے بنا ہے

جرنل آف آرکیالوجیکل سائنس میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق سوئٹزرلینڈ کے میوزیم میں رکھا ہوا تین ہزار سال پرانا تیر کا پھل (ہیڈ) ایک شہاب ثاقب سے حاصل ہونے والے لوہے کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا۔

برن عجائب گھر سوئٹزر لینڈ کا ایک ڈسپلے روم (ویب سائٹ برن ہسٹری میوزیم)

جرنل آف آرکیالوجیکل سائنس میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق سوئٹزرلینڈ کے برن ہسٹری میوزیم میں رکھا ہوا تین ہزار سال پرانا تیر کا پھل (ہیڈ) ایک شہاب ثاقب سے حاصل ہونے والے لوہے کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا تھا۔

جریدے میں شائع ہونے والی نئی تحقیق میں محققین تیر کے پھل کی خصوصیات اور اس میں استعمال ہونے والے لوہے سے بھرپور شہابی مادے کے ممکنہ ذرائع کی وضاحت کرتے ہیں۔

گذشتہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ قدیم انسانی معاشروں میں آسمان سے گرنے والے شہاب ثاقب سے حاصل ہونے والا لوہا بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا تھا۔ یورپ میں ابتدائی شہابی لوہے کے استعمال کی ایسی بہت سی مثالیں دریافت ہوئی تھیں۔

نئے مطالعہ میں محققین نے سوئٹزرلینڈ میں آثار قدیمہ کے مجموعوں کا جائزہ لیا تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ آیا ان میں سے کوئی نمونے فلکی دھات سے بنے تھے یا نہیں۔

انہوں نے پایا کہ برن ہسٹری میوزیم میں موجود تیر کا پھل جزوی طور پر ایسی ایلومینیم دھات سے بنایا گیا تھا جو قدرتی طور پر کرہ ارض پر نہیں پائی جاتی۔

اس تیر کے پھل میں محققین کو لوہے اور نِکل کا مرکب بھی ملا ہے جو صرف شہابیوں میں پایا گیا ہے۔

یہ تیر مارجن نامی کانسی کے زمانے کے مقام سے دریافت ہوا تھا جہاں ابتدائی لوگ 900 اور 800 بی سی ای دور کے درمیان رہتے تھے۔

محققین کا ابتدائی خیال تھا کہ تیر کا پھل ٹوانبرگ شہابیے کی دھات کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا تھا جو اُس جگہ سے آٹھ کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر گر کر تباہ ہوا جہاں سے یہ ہتھیار دریافت ہوا تھا۔

تاہم انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جرمنییم اور نِکل کی ارتکاز شہابیے کے نمونے اور تیر کے پھل کے درمیان مماثل نہیں ہے۔

شہابیوں کے ارضیاتی ڈیٹا بیس میں ایک اور ممکنہ ذرائع کی تلاش میں سائنس دانوں نے پایا کہ یورپ میں پہلے دریافت ہونے والے صرف تین دیگر شہابیوں میں دھاتوں کا وہی مجموعہ پایا گیا جو تیر میں دیکھا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ شہابیے جمہوریہ چیک، سپین اور ایسٹونیا میں دریافت ہوئے تھے۔

محققین کو اب یقین ہے کہ ایسٹونیا سے ملنے والا شہابی مادہ تیر کے پھل کی تیاری کے لیے سب سے زیادہ ممکنہ ذریعہ رہا ہوگا۔

نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ وسطی یورپ میں کانسی کے زمانے کے دوران ایسٹونیا اور سوئٹزرلینڈ کے ابتدائی مقامات کے درمیان ایک وسیع تجارتی نیٹ ورک موجود تھا۔

سائنس دانوں نے مطالعہ میں لکھا کہ ’مناسب کیمیائی ساخت کے ساتھ صرف تین بڑے یورپی شہابیوں میں ایسٹونیا سے ملنے والا  کالیجاروف شہابی مواد تیر کا سب سے زیادہ ممکنہ ذریعہ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ایسٹونیا میں شہابیے کا بڑا گڑھا بننے کا واقعہ ممکنہ طور پر کانسی کے زمانے سے 1500 قبل مسیح میں پیش آیا جس کے بہت سے چھوٹے ٹکڑے بکھر گئے۔

محققین نے لکھا: ’اس طرح کے چھوٹے لوہے کے ٹکڑوں کی دریافت اور اس کے نتیجے میں نقل و حمل یا تجارت کا امکان دفن ہونے والے بڑے شہابیے کے مقابلے میں بہت زیادہ نظر آتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اسی مادے کے اضافی نمونے دیگر آثار قدیمہ کے مجموعوں میں موجود ہو سکتے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق