مالدیپ کے نئے صدر کا ’انڈین فوجیوں‘ کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ

مالدیپ کے نئے صدر محمد معیز نے کہا: ’ہم مالدیپ کی سر زمین پر کسی غیر ملکی فوجی کی موجودگی نہیں چاہتے۔۔۔میں مالدیپ کے لوگوں سے عہد کرتا ہوں کہ میں پہلے دن سے اپنا وعدہ پورا کروں گا۔‘

دو اکتوبر 2023 کی اس تصویر میں مالدیپ کے نو منتخب صدر محمد معیز  مالی میں ایک تقریب میں موجود (محمد افراح/اے ایف پی)

مالدیپ کے نو منتخب صدر محمد معیز کے مطابق انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اگلے ماہ ان کی حلف برداری کی تقریب سے قبل تمام انڈین فوجیوں کو ان کے ملک کی سرزمین سے نکال دیا جائے۔

مالدیپ میں حالیہ عام انتخابات میں چین نواز اپوزیشن لیڈر محمد معیز کی کامیابی سے انڈیا کو دھچکا لگا ہے۔

انڈیا کے سیاحت کے لیے مشہور ملک مالدیپ کے ساتھ روایتی طور پر قریبی تعلقات رہے ہیں اور بحر ہند کے خطے میں چینی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے انڈین فوج وہاں موجود ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق مالدیپ کے نئے صدر کا کہنا تھا کہ ’ہم مالدیپ کی سر زمین پر کسی غیر ملکی فوجی کی موجودگی نہیں چاہتے۔۔۔میں مالدیپ کے لوگوں سے عہد کرتا ہوں کہ میں پہلے دن سے اپنا وعدہ پورا کروں گا۔‘

انتخابات میں کامیابی کی رات جشن کے دوران محمد معیز نے اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ مالدیپ میں اپنے شہریوں کی مرضی کے خلاف کسی غیر ملکی فوج کا قیام برداشت نہیں کریں گے۔

بی بی سی کے مطابق چین نواز رہنما نے کہا کہ انہوں نے ملک کا صدر منتخب ہونے کے چند دن بعد انڈین سفیر سے ملاقات کی اور ’انہیں واضح طور پر بتایا دیا کہ یہاں موجود ہر انڈین فوجی اہلکار کو ہٹا لیا جائے۔‘

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب انہوں نے کہا تھا کہ وہ صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد انڈین حکومت سے درخواست کریں گے کہ ’پہلے دن‘ سے اپنی فوج کو واپس بلا لے۔ یہ اقدام مالدیپ کے لیے ان کی اولین ترجیحات میں شامل اور چین کے خلاف کسی بھی فوجی موجودگی کو ختم کرنے کا واضح اشارہ ہے۔

انہوں نے کہا: ’درحقیقت میں نے چند روز قبل اقتدار کی منتقلی کے دوران انڈیا کے ہائی کمشنر سے ملاقات کی اور اس ملاقات کے دوران ہی میں نے کہا کہ ہمیں یہ (انڈین فوج کی واپسی) اپنی اولین ترجیح بنانے کی ضرورت ہے۔‘

پیپلز نیشنل کانگریس کے رہنما محمد معیز  کا انتخاب انڈیا کے لیے سخت سفارتی دھچکا ہے۔

وہ ستمبر کے آخر میں مالدیپ میں اقتدار میں آئے۔ وہ کچھ انڈین فوجی اہلکاروں کی جانب سے مالدیپ کی خودمختاری کو درپیش مبینہ خطرات کو ختم کرنے کے لیے بھرپور انداز میں پرعزم اور اپنی پارٹی کی دیرینہ ’انڈیا آؤٹ‘ حکمت عملی کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ سبکدوش ہونے والے صدر ابراہیم محمد صالح کی جگہ لیں گے، جن پر انہوں نے الزام لگایا تھا کہ انہوں نے انڈیا کو ملک میں بلا روک ٹوک موجودگی کی اجازت دی۔ ابراہیم محمد صالح، انڈیا کے کٹر اتحادی ہیں اور انہوں نے اپنی مدت صدارت کے دوران نئی دہلی کے ساتھ مستحکم تعلقات برقرار رکھے۔

محمد معیز نے الجزیرہ ٹیلی ویژن کے ساتھ بات چیت میں کہا: ’ہم صدیوں سے ایک بہت پرامن ملک رہے ہیں۔ ہماری سرزمین پر کبھی کوئی غیر ملکی فوج نہیں رہی۔ ہمارے پاس کوئی بڑا فوجی نظام نہیں ہے اور ہماری سرزمین پر کسی بھی غیر ملکی فوج کی موجودگی کی وجہ سے ہم خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے۔‘

نومنتخب صدر نے مالدیپ کی سرزمین پر موجود انڈین فوجیوں کی مجموعی تعداد کے بارے میں نہیں بتایا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی مدت صدارت میں چین کی طرف جھکاؤ دیکھا جائے گا تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی پالیسی مالدیپ نواز ہوگی۔

مالدیپ میں موجود انڈین فوجیوں کی تعداد نامعلوم ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان فوجی اہلکاروں کی تعیناتی اور ان کے کردار سے متعلق معاہدے کی رازداری نے شکوک و شبہات اور افواہوں کو جنم دیا ہے۔

انڈین فوج کی نمایاں سرگرمیوں میں انڈیا کی جانب سے عطیہ کیے گئے دو ہیلی کاپٹر اڑانا اور محصور یا سمندر میں آفات کا سامنا کرنے والے لوگوں کو بچانے میں مدد کرنا شامل ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا