حماس کی حکمت عملی، اسرائیل کی پسپائی کا سبب بنے گی؟

مظلوم فلسطینی اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے اسرائیلی ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر غزہ کو سر نِگوں ہونے سے بچا رہے ہیں۔

فلسطینی شہری 30 اکتوبر 2023 کو غزہ کی پٹی کے جنوبی علاقے خان یونس پر اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد تباہ ہونے والی عمارت کا جائزہ لے رہے ہیں (اے ایف پی)

اسرائیل کو غزہ کی زمین جنگ میں حماس کے جنگجوؤں کے حملے سے شکست کا سامنا ہے۔

مظلوم فلسطینی اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے اسرائیلی ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر غزہ کو سر نِگوں ہونے سے بچا رہے ہیں۔

اسرائیل فلسطینیوں کا سامنا نہیں کر سکا۔ اسرائیلی امور پر گہری نظر رکھنے والے مصری صحافی احمد موسیٰ نے بھی ذرائع کے حوالے سے اس کی تصدیق کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جنرل صیب اپنے متعدد اسرائیلی فوجی سپاہیوں کے ہمراہ حماس کے جنگجوؤں کے گھیرے میں آ گئے ہیں، عبرانی ذرائع بھی اس خبر کی تصدیق کر رہے ہیں۔

اس پس منظر میں حماس بھی اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے فوری تبادلے کے لیے آمادہ ہو گیا ہے۔

اسرائیلی فوج حماس کے خلاف مزید کارروائیوں کی نیت سے غزہ کی پٹی میں داخل ہو چکی ہے اور دفاعی ماہرین یہ وارننگ دے رہے ہیں کہ اسرائیلی فوج کو غزہ اور اس کے دوسرے گنجان آباد شہروں میں عالمی جنگ کے بعد ایک خوفناک ترین جنگ لڑنا پڑ سکتی ہے۔

شہری جنگ سے متعلق سٹڈیز کے علاوہ امریکی حکام بھی عراق میں لڑی جانے والی جنگ کے ساتھ اس کا موازنہ کر رہے ہیں۔

2004 میں فلوجا میں ہونے والی جنگ کا تصور کریں جب امریکی فوج کو ویت نام جنگ کے بعد خوفناک جنگیں لڑنا پڑی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2016 میں موصل کی جنگ کو یاد کریں جب نو مہینے تک داعش کے ساتھ جنگ ہوتی رہی اور اس میں 10 ہزار شہری بھی مارے گئے۔

موصل میں داعش کے پاس جتنے جنگجو تھے، کہا جا رہا ہے کہ حماس کے پاس ان سے تین سے پانچ گنا زیادہ ہیں جن کی تعداد 40 ہزار سے زائد ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانوں اور شہری جنگجوؤں کی خدمات بھی لی جا سکتی ہیں۔

حماس کی قیادت کے پاس غزہ کی سرحد کے آرپار کا تجربہ موجود ہے۔ شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر اسرائیل کے ٹینکوں اور گولہ بارود کی برتری کو گوریلا جنگ کی مدد سے روکا جا سکتا ہے۔

امریکی تھنک ٹینک لمحے لمحے کے تجزیے پینٹاگون کو دے رہے ہیں کہ حماس کی حکمت عملی سے اسرائیل کی پسپائی دیوارِ گریہ پر لکھی جا چکی ہے۔

اگر جنگ لڑنے کے لیے حماس اور فلسطینی انسانی تاریخ سے کوئی سبق اور رہنمائی لینا چاہیں تو غزہ شہر میں جنگی حکمت عملی ترتیب دیتے ہوئے تین عوامل کو پیش نظر رکھنا ضروری ہوگا۔

1۔ شہری ماحول اور صورت حال۔

2۔ شہری اور جنگجوؤں کا باہمی تال میل اور انٹرایکشن۔

3۔ سیاسی دباؤ۔

غزہ کے جغرافیائی محل وقوع کی باتیں کریں تو اس کا رقبہ 140 مربع میل یا 360 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے اور یہ ایک تنگ سی پٹی کی شکل میں ہے جبکہ جگہ جگہ گنجان شہری آبادی رہائش پذیر ہے۔

غزہ سٹی جو اس کا دارالحکومت ہے اور اس کی آبادی سات لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، جو صرف 20 مربع میل رقبے پر محیط ہے۔ امریکہ کو موصل میں جس طرح کی بلند و بالا عمارتوں میں جنگ لڑنا پڑی تھی غزہ میں اس سے بھی زیادہ بلند عمارتیں موجود ہیں، جس کی وجہ سے یہاں خطرناک حد تک حماس کے جنگجو اسرائیلی فوج کو آگ و خون کے سمندر میں غرق کر دیں گے۔

غزہ پر اسرائیل کی بمباری کا کوئی جواز نہیں ہے اور اسرائیلی جارحیت کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔ حقیقی یہودی جو فلسطین کے شہری ہیں اپنی صیہونی ریاست کے وجود کے خلاف ہیں۔

اسرائیل کے عرب یہودیوں کو 1990 تک ووٹ دینے کے استحقاق سے محروم رکھا گیا تھا۔ صیہونی اور یہودیوں میں بڑا فرق ہے۔

صیہونی خارجی یہودی ہیں جن سے عرب یہودی شدید نفرت کرتے ہیں اور حماس کے میزائیلوں اور راکٹوں نے اسرائیل کے شہریوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔

وقت قریب آن پہنچا ہے کہ فلسطین صیہونی ریاست سے آزاد ہو جائے گا، حماس کی جنگی حکمت عملی کامیاب ہو جائے گی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ