نواز شریف کی واپسی کے بعد جاتی امرا میں سیاسی سرگرمیاں بحال

مسلم لیگ ن کی سیکریٹری اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کے مطابق: ’ہمیں تیزی سے انتخابات کی طرف جانا ہے۔‘

 سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف 24 اکتوبر 2023 کو اسلام آباد میں عدالت میں پیشی کے لیے آتے ہوئے (عامر قریشی / اے ایف پی)

پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف مری اور اسلام آباد کے دورے کے بعد جاتی امرا میں اپنی رہائش گاہ پہنچ چکے ہیں اور امکان ہے کہ وہ آج (منگل) کو پارٹی عہدیداران اور ارکان کے ساتھ ایک اہم ملاقات کریں گے۔

نواز شریف کی غیرموجودگی کے دوران پارٹی کے صدر شہباز شریف اور چیف آرگنائزر مریم نواز نے ماڈل ٹاؤن، لاہور میں واقع مسلم لیگ ن کے مرکزی سیکرٹیریٹ میں پارٹی اجلاس جاری رکھے تھے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کی سیکریٹری اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے اس اجلاس کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میاں نواز شریف ملک میں واپس آ گئے ہیں اور ہمیں تیزی سے انتخابات کی طرف جانا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اجلاس کے دوران انتخابات کے حوالے سے مختلف حوالوں سے کمیٹیاں بنیں گی۔ اس کے علاوہ منشور اور اس حوالے سے بھی فیصلے ہونے ہیں کہ انتخابی مہم کس طرح تیار کرنی ہے۔

بقول عظمیٰ بخاری: ’میاں نواز شریف ابھی اپنے عدالتی معاملات میں بھی مصروف ہیں۔ ابھی انہیں کوئی فری ہینڈ نہیں ملا ہوا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیاں بھی چلتی رہیں گی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ سب فیصلے ایک ہی اجلاس میں نہیں ہو جاتے۔ ’ایسے فیصلوں کے لیے مشاورت ہوتی ہے، پھر جا کر فیصلے ہوتے ہیں اور ان کو حتمی شکل دی جاتی ہے۔‘

میاں نواز شریف علاج کی غرض سے چار سالہ خودساختہ جلاوطنی کے بعد رواں ماہ وطن واپس پہنچے، جس کے بعد ان کی پارٹی عہدیداران و ارکان سے یہ پہلی رسمی ملاقات ہوگی۔

نواز شریف کے وطن واپسی کے بعد سے دیگر جماعتیں خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف کی واپسی ان کے اداروں سے کسی سمجھوتے کا نتیجہ ہے۔

پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اعتزاز احسن نے بھی ہفتے کو ایک بیان میں کہا کہ ’نواز ۔اسٹیبلشمنٹ ڈیل اب ایک کھلا راز ہے۔ جس لمحے اس شخص کو دوبارہ موقع ملتا ہے وہ باقی سب کو صفر کر دیتا ہے۔‘

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سید حسن مرتضیٰ سے گفتگو کی، جنہوں نے نواز شریف کی واپسی کو ’ڈیل کا نتیجہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’کل کا مجرم آج کا لاڈلا ہے۔ اگر اسی طرح سوار بدلتے رہے تو کہیں کندھے تھک نہ جائیں۔‘

انہوں نے نام لیے بغیر کہا کہ ’یہ میاں نواز شریف کو لانے کا تجربہ کرنے جا رہے ہیں۔ یہ انہیں مہنگا پڑے گا، یہ نہ ملک کے لیے بہتر ہے اور نہ ہی سیاسی نظام کے لیے۔‘

مستقبل میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کے حوالے سے سوال کے جواب میں سید حسن مرتضیٰ نے کہا: ’سیاست میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کسی چیز کا کوئی چانس یا امکان نہیں ہے کیونکہ آپ کو نہیں معلوم ہوتا کہ حالات کیا بن جائیں لیکن بظاہر جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ جو مداخلت ہو رہی ہے، ہمارا ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں بالکل غیر جاندارانہ شفاف انتخابات کی طرف جانا ہوگا۔ اسی سے ملک آگے چل سکتا ہے۔‘

تاہم عظمیٰ بخاری نے پیپلز پارٹی کی جانب سے لگایا گیا ’ڈیل‘ کا الزام مسترد کردیا۔ ان کا کہنا تھا: ’پیپلز پارٹی کے ڈیل کے الزام کی جہاں تک بات ہے تو یہ ایک انتہائی افسوسناک بات ہے۔ یہ بات وہ لوگ کر رہے ہیں جو ہمیشہ سے ہمارے ساتھ ہر ایک جدوجہد میں شامل رہے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی والے اپنے ساتھ ہونے والی عدالتی ناانصافیوں پر شکوے کرتے رہے ہیں لیکن اب جب ہمارے ساتھ عدالتی ناانصافیاں ہو رہی ہیں تو وہ ان کو نظر نہیں آ رہیں۔

’حقائق پر مبنی پوزیشن یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے پاؤں پر کلہاڑا خود مارا اور اب ان کے بہت سے لوگ پارٹی چھوڑ کر جا چکے ہیں یا وہ سیاست نہیں کرنا چاہتے۔ اب ان کے پاس امیدوار ہوں گے یا نہیں ہوں گے تو ظاہری بات ہے، اس کا فائدہ دوسری بڑی پارٹی کو ہوگا، جو ہم ہیں۔

’اس فائدے کو کسی ڈیل کی شکل دینا قطعی نامناسب ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’پیپلز پارٹی کے ساتھ ہماری کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہو رہی اور یہی ان کا دکھ ہے اور یہی ان کو پریشانی ہے اور اسی پر وہ ’رولا‘ ڈال رہے ہیں اور اسی بات پر انہوں نے رونا دھونا مچایا ہوا ہے۔‘

میاں نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے درمیان رابطے کی خبروں کے حوالے سے سوال پر عظمیٰ بخاری نے کہا کہ آصف علی زرداری ایسے سیاست دان ہیں جو بہت کم بولتے ہیں اور ان کے رابطے بھی سب سے رہتے ہیں۔

’وہ اپنے رابطے توڑتے نہیں۔ وہ سیاست پر بڑی گہری نگاہ رکھتے ہیں، اس لیے ان کے یقیناً رابطے ہیں۔ وہ نواز شریف کے ساتھ بھی رابطے میں رہتے ہیں اور باقی سیاست دانوں کے ساتھ بھی۔‘

اس ساری صورت حال کے حوالے سے سیاسی تجزیہ کار وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ ’اگر نواز شریف واپس آکر اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کر رہے ہیں تو اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں وجاہت مسعود نے کہا: ’وہ ملک سے باہر رہ کر بھی پارٹی کے فیصلوں میں کلیدی کردار ادا کیا کرتے ہیں اور اب پاکستان میں بھی وہ ایسا ہی کریں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’نواز شریف کی واپسی اتنی اہم نہیں ہے جتنا یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ انہیں ریاستی طاقتوں کے سامنے ایک بے بس شہری کی حیثیت سے اس ملک سے جانا پڑا تھا۔‘

انہوں نے پاکستان کے سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی کی مثال دیتے ہوئے کہا: ’انہیں 1963 میں جب نظر بند کیا گیا تو انہیں ملک چھوڑ کر جانا پڑا اور لبنان میں ان کا انتقال ہوا۔ 1982 اور پھر 1998 میں بے نظیر بھٹو جلاوطن ہوئیں۔‘

بقول وجاہت مسعود: ’اس ملک میں نواز شریف 2000 میں ہی جلا وطن نہیں ہوئے، 2016 کے مئی میں بھی انہیں 40 دن کے لیے برطانیہ میں رہنا پڑا تھا، جب ان پر سابق آرمی چیف راحیل شریف کی ایکسٹینشن کا دباؤ تھا۔ 

’نومبر 2019 میں بھی انہیں دراصل جلا وطن ہی کیا گیا تھا، جس کے بعد اس کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا تھا کہ انہیں علاج کی غرض سے بھیجا گیا ہے۔‘

وجاہت مسعود کے خیال میں: ’اس ملک کے عوام اور اس ملک کی جمہوری طاقتیں ملک کو واپس جمہوریت کی طرف لے کر آتی ہیں لیکن جیسے ہی موقع ملتا ہے، غیر جمہوری قوتیں پھر سے حملہ آور ہو جاتی ہیں۔‘

21 اکتوبر کو تقریباً چار سال بعد وطن واپسی پر نواز شریف نے لاہور کے مینار پاکستان گراؤنڈ میں ایک جلسے سے خطاب میں ملکی حالات پر افسوس کا اظہار کرتے معاشی مشکلات سے ملک کو نکالنے کے لیے ایک نو نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا، لیکن انہوں نے اپنے خطاب میں نہ تو انتخابات کروانے سے متعلق کچھ کہا اور نہ ہی کسی سیاسی مفاہمت کا ذکر کیا۔

الیکشن کمیشن نے جنوری 2024 کے آخر میں ملک میں انتخابات کروانے کا اعلان کر رکھا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ جاتی امرا میں ہونے والی اس اہم پارٹی اجلاس میں نواز شریف ملک کی سیاسی صورت حال کا جائزہ لینے کے علاوہ آنے والے انتخابات کے حوالے سے بھی مشاورت کریں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان