میرے دوست پکچر ابھی باقی ہے

پاکستان کو اب انگلینڈ کے خلاف اپنا آخری لیگ میچ یہ سوچ کر کھیلنا ہوگا کہ یہ آخری لیگ میچ ضرور ہے لیکن اس کے لیے ٹورنامنٹ کا آخری میچ نہیں۔

پاکستانی کرکٹ میٹ کے بلے باز فخر زمان چار نومبر 2023 کو بنگلورو کے ایم چناسوامی سٹیڈیم میں  ایک بال پر شاٹ لگا رہے ہیں (سجاد حسین/ اے ایف پی)

ہفتے کا دن ہم تمام پاکستانیوں کے لیے اس امید کے ساتھ شروع ہوا کہ پاکستان نیوزی لینڈ کو شکست دے کر ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات کو برقرار رکھے گا، لیکن جب نیوزی لینڈ کے بلے بازوں کے ہاتھوں پاکستانی بولرز کی درگت دیکھنی پڑی تو 402 رنز کا ہندسہ دیکھ کر امیدیں دھندلانے لگیں۔

لیکن کرکٹ میں جب یقین اگر مگر میں بدلنے لگے تو سمجھ لیں کہ پاکستان کرکٹ ٹیم پر قسمت مہربان ہونے لگی ہے۔

بارش کی وجہ سے پاکستان کو پہلے 342 رنز کا نظرثانی شدہ ہدف ملا اور پھر جب دوبارہ کھیل ممکن نہ ہو سکا تو پاکستان کو ڈک ورتھ لوئس کے تحت فاتح قرار دیا جا چکا تھا۔

اس خوشی کی ایک بھرپور جھلک میچ کے اختتام پر گفتگو کرتے وقت کپتان بابر اعظم کے چہرے پر واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی۔

اعدادوشمار کے گورکھ دھندے اور اگر مگر کے حساب کتاب کے تحت پاکستانی ٹیم دو پوائنٹس لے کر پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں نمبر پر آ چکی ہے اور اس کا رن ریٹ بھی بہتر ہو کر مائنس کی قید سے آزاد ہو چکا ہے۔

اس وقت پاکستان، نیوزی لینڈ اور افغانستان تین ٹیمیں آٹھ، آٹھ پوائنٹس کے ساتھ سیمی فائنل میں پہنچنے کی امیدوار ہیں۔

صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کو اپنا آخری لیگ میچ انگلینڈ کے خلاف کھیلنا ہے، لیکن اس سے قبل نیوزی لینڈ کو سری لنکا سے مقابلہ کرنا ہے۔

نیوزی لینڈ کی سری لنکا کے خلاف شکست اور پاکستان کی انگلینڈ کے خلاف جیت کی صورت میں پاکستان سیمی فائنل میں جا سکتا ہے، بشرطیکہ افغانستان اپنے آخری دو میچ ہار جائے جو آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے خلاف ہیں۔

آسٹریلیا آج انگلینڈ کے خلاف اپنا میچ جیت چکا ہے، جس کے بعد اس کے دو آسان میچ بنگلہ دیش اور افغانستان سے باقی ہیں۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہےتو یہ پرانی ریت رہی ہے کہ ٹورنامنٹ کے آخری دنوں میں ایک موڑ ایسا ضرور آتا ہے جب اس کے لیے بگڑی بنتی ہوئی نظر آ جاتی ہے۔ 

لگ رہا ہے کہ اس ورلڈ کپ میں بھی ’میرے دوست پکچر ابھی باقی ہے‘ والا معاملہ ہے۔ اگر ہم اس ورلڈ کپ میں پاکستان کی مجموعی کارکردگی کی بات کریں تو اس نے ہالینڈ اور سری لنکا کے خلاف میچ جس ُپراعتماد انداز میں جیتے اس کے بعد کوئی بھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ یہ ٹیم اگلے تین میچ اس برے طریقے سے ہارے گی کہ منظرنامہ بدل جائے گا۔ 

ان تین میچوں میں سب سے تکلیف دہ شکست افغانستان کے خلاف تھی، جس نے پوری قوم کی مایوسی کو انتہا پر پہنچا دیا۔

جنوبی افریقہ کے خلاف شکست کے بعد بھی اس کی سیمی فائنل میں پہنچنے کی امیدیں دلائی جاتی رہیں لیکن اس کا سیمی فائنل میں پہنچنا اس کے اپنے ہاتھ سے نکل کر دوسروں کے ہاتھ میں چلا گیا اور اب نیوزی لینڈ کے خلاف جیت کے بعد امید بہرحال موجود ہے۔

پاکستان نے اس ورلڈ کپ میں جس طرح کی کرکٹ کھیلی وہ کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھی۔

اس مایوس کن کارکردگی کے کئی عوامل ہیں۔ کھلاڑیوں اور کرکٹ بورڈ کی جانب سے اپنی اپنی باتیں کی جاتی رہیں۔

ٹیم ڈائریکٹر مکی آرتھر میڈیا کے سامنے آ کر ہر بار ایک نئی کہانی سناتے رہے لیکن اگر صرف اور صرف کرکٹنگ پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے بات کی جائے تو کسی راکٹ سائنس کے بغیر یہ بات ماننی پڑے گی کہ پاکستانی ٹیم اہم اور بڑے میچوں میں بہت خراب کھیلی۔

یہاں تک کہ نیوزی لینڈ کے خلاف جیت بھی فخر کی شاندار بیٹنگ کی مرہون منت رہی، ورنہ بولرز نے 401 رنز بنوا کر امیدوں پر پانی پھیردیا تھا۔

پاکستان کی بیٹنگ کے نقطۂ نظر سے سب سے مایوس کن بات یہ رہی کہ وہ ہالینڈ، انڈیا، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ یہاں تک کہ افغانستان کے خلاف بھی پورے 50 اوورز نہ کھیل سکی۔

ورلڈ کپ شروع ہونے سے قبل پاکستان میں ہر کوئی چین کی بنسری بجا رہا تھا کہ یہ ٹیم دنیا کے بہترین پیس اٹیک سے لیس ہے، یعنی شاہین آفریدی، حارث رؤف اور نسیم شاہ انڈیا پہنچیں گے اور فتح کے جھنڈے گاڑ دیں گے۔ 

بدقسمتی سے نسیم کی انجری ایک بڑا دھچکہ ثابت ہوئی، اس کے باوجود شاہین آفریدی اور حارث سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں لیکن یہ دونوں بولر ان توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

خاص کر حارث کی کارکردگی نے یہ نکتہ اٹھا دیا کہ چار اوورز اور 10 اوورز کی کرکٹ میں بہت بڑا فرق ہے۔ 

کبھی رحمان اللہ گرباز ان کے پہلے اوور میں چار چوکے مارتے نظر آئے تو کبھی مچل مارش اور ڈیوڈ وارنر ان کے پہلے اوور میں 24 رنز بٹورنے میں کامیاب رہے، تو کبھی روہت شرما نے ان کے پہلے ہی اوور میں دو چھکے جڑ دیے۔

نیوزی لینڈ کے خلاف اہم ترین میچ میں پاکستانی پیس اٹیک کی جو درگت بنی وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔

حسن علی اور حارث تو مہنگے ثابت ہوئے لیکن کون سوچ سکتا ہے کہ شاہین شاہ آفریدی کے 10 اوورز میں 90 رنز بنیں گے۔

شاہین شاہ آفریدی کے لیے وکٹ لینے کا سلسلہ پہلے ہی اوور میں شروع ہو جاتا تھا، لیکن اس ورلڈ کپ میں سب نے دیکھا کہ حریف اوپنرز نے پہلے ہی اوور سے ہی ان پر اٹیک شروع کر دیا جو کبھی کوائنٹن ڈی کوک کے چار چوکوں کی شکل میں رہا تو کبھی مچل مارش کے چھکے کی صورت میں تو کبھی انڈین اور افغان اوپنرز کے دو، دو چوکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ورلڈ کپ سے قبل یہ بات بھی تشویش کا سبب بنی ہوئی تھی کہ پاکستانی سپنرز محمد نواز اور شاداب خان مڈل اوورز میں وکٹیں لینے کے سلسلے میں مسلسل ناکامی سے دوچار ہو رہے ہیں اور یہ بات ورلڈ کپ میں کھل کر سامنے آ گئی۔

بدقسمتی سے ٹیم سلیکشن ہی کچھ اس طرح ہوئی کہ ٹیم میں کوئی بھی سپیشلسٹ سپنر موجود نہ تھا اور اگر ابرار احمد کی شکل میں کوئی ایسا بولر تھا تو وہ بھی ٹیم میں نہیں بلکہ ٹریولنگ ریزرو میں شامل تھا۔

پاکستان کی نیوزی لینڈ کے خلاف جیت کا تمام تر کریڈٹ فخر کو جاتا ہے، جنہوں نے ایک بار پھر اپنے ناقدین کو بھرپور جواب دیا، جو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ انہیں ورلڈ کپ میں کیوں منتخب کیا گیا؟ 

ٹھیک ہے وہ گذشتہ چند اننگز میں بڑا سکور نہیں کر پائے لیکن یہ بات سبھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ گیم چینجر ہیں اور کسی بھی وقت اپنی جارحانہ بیٹنگ سے کھیل کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔

بنگلہ دیش اور پھر نیوزی لینڈ کے خلاف انہی کی دو اننگز نے پاکستانی ٹیم میں ایک نئی روح پھونک دی، جسے اب اپنا آخری لیگ میچ یہ سوچ کر کھیلنا ہوگا کہ یہ آخری لیگ میچ ضرور ہے لیکن اس کے لیے ٹورنامنٹ کا آخری میچ نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ