بن یامین نتن یاہو کے پاس کون سے راستے بچے ہیں؟

موجودہ وحشیانہ جنگ کے نتائج چاہے جو نکلیں، یہ جنگ نتن یاہو کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ٹھونک دے گی۔

اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو 8 مارچ 2011 کو مقبوضہ مغربی کنارے میں اردن کی وادی میں ایک فوجی اڈے کے دورے کے دوران اسرائیلی فوجیوں سے بات کرتے ہوئے اشارہ کر رہے ہیں (اے ایف پی)

جیسے جیسے غزہ پر وحشیانہ اور اندھا دھند بمباری دوسرے مہینے میں داخل ہو رہی ہے، اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے پاس اس جنگ کے ڈراؤنے خواب کو ختم کرنے کے لیے بہت راستے نظر نہیں آتے۔ 

لیکن ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ سامنے آنے والے تمام آپشنز انہیں یقینی طور پر سیاسی موت کی طرف لے جائیں گے۔

اے بی سی کے ساتھ ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں، نتن یاہو نے اعلان کیا کہ وہ غزہ پر غیر معینہ مدت تک قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن یہ فیصلہ ان کے اتحادی امریکی صدر جو بائیڈن کے بیانات سے متصادم ہے۔ مزید یہ کہ یہ فیصلہ تل ابیب کے ان تمام مغربی اتحادیوں کے خیالات کے برعکس ہے، جنہوں نے حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

اس لیے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ مختلف نیوز میڈیا میں جنگ کے خوفناک مناظر دکھائے جانے سے رائے عامہ متاثر ہو گی۔ خاص طور پر غزہ میں رونما ہونے والے خوفناک واقعات نہ صرف اسرائیل کے لیے عوامی حمایت میں کمی کا باعث بنے ہیں بلکہ غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کے ساتھ پہلی بار لوگوں نے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔

درحقیقت غزہ کی مشکل صورت حال نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں کو غزہ جنگ کے متاثرین کو انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے پیرس اجلاس منعقد کرنے پر مجبور کیا۔ امریکہ بھی مستقل طور پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی ضرورت پر زور دیتا ہے، حالانکہ یہ واضح نہیں کہ یہ درخواستیں کتنی سنجیدہ ہیں۔

غزہ پر قبضے کے بارے میں نتن یاہو کے بیانات کی دو وضاحتیں ہو سکتی ہیں: یا تو وہ نفسیاتی جنگ کی مشق کر رہے ہیں اور لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ غزہ کی پٹی پر قابض ہو جائیں گے، اور یہ کارروائی صرف محدود وقت کے لیے ہوگی، حالانکہ دوسری جانب اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ 

اسے فلسطینیوں کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے، جس نے نہ صرف ان کے حامیوں کو بلکہ ان کے مخالفین کو بھی بہت متاثر کیا ہے۔ یا یہ کہ نتن یاہو ابھی تک افراتفری کا شکار ہیں، جس کا آغاز گذشتہ اکتوبر کی سات تاریخ کو الاقصیٰ طوفان آپریشن کے وقت سے ہوا تھا۔ 

چونکہ غزہ پر قبضہ کرنا تقریباً ناممکن ہے، اور نتن یاہو اسرائیل کے سابق رہنما ایریل شیرون سے زیادہ بے رحم اور بہادر نہیں ہوں گے جنہوں نے 2005 میں غزہ کی پٹی سے دستبردار ہو کر بہت سے اسرائیلیوں کو مایوس کیا تھا۔ 

اس کے علاوہ اس کے بعد سے غزہ کی پٹی کئی خونریز حملوں کی زد میں آ چکی ہے۔ مغربی کنارے پر مکمل تسلط کے لیے کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنے والی اسرائیلی فوج کو غزہ کی تباہی اور جنگ سے متاثر ہونے والے 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کے غیظ و غضب کے بعد اس پر قابو پانے کے لیے مزید چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

خاص طور پر اس وقت جب غزہ کی پٹی میں کوئی بھی ایسا خاندان نہیں مل سکتا جو اپنے کم از کم اپنے ایک عزیز سے محروم نہ ہوا ہو۔

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اسرائیل کی جنگی کابینہ کے کسی اور رکن نے غزہ پر قبضے کا ذکر نہیں کیا، یہ کہا جا سکتا ہے کہ غزہ پر قبضے کے بارے میں نتن یاہو کے بیانات ان کی الجھن کی وجہ سے ہیں۔ اس کے علاوہ، نتن یاہو کی طرف سے غزہ پر قبضے کا مسئلہ اٹھانا جنگ کے ارتقا، اس کے انتظام کے طریقہ کار اور غزہ میں جنگ کو ختم کرنے کے حوالے سے اسرائیل کے رہنماؤں کے متضاد موقف کو ظاہر کرتا ہے۔

نتن یاہو پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ جن لوگوں کو حماس نے قید کر رکھا ہے، ان کے رشتے داروں کی طرف سے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ وہ خاندان جن کے نوجوانوں کو نتن یاہو نے غزہ میں لڑنے کے لیے بھیجا ہے، وہ ان کے واپس آنے کی خبر سننے کے منتظر ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب، سرکاری ادارے، میڈیا اور سول سوسائٹی کے کارکن نتن یاہو اور ان کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت سے آپریشن طوفان الاقصیٰ کی وجہ بننے والے بڑے پیمانے پر سکیورٹی سکینڈل کے بارے میں سوال کرنے کے لیے جنگ کے خاتمے کا بےصبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ 

جن لوگوں نے اسرائیل کی قومی سلامتی کے معاملے میں غفلت برتی ہے، جس کے سربراہ یقیناً نتن یاہو ہیں، اسرائیلی قوم ان سے پوچھ گچھ کرے گی اور انہیں سزا دینے کے درپے ہو گی۔

اس کے علاوہ نتن یاہو کو ایک اور بڑے خطرے کا سامنا ہے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد ان کی حکومت کے کچھ ارکان ان کے مخالفین کی صفوں میں شامل ہو گئے تھے اور کچھ مخالفین غزہ پر حملے کے دوران ان کے عارضی حلیف بن گئے تھے، لیکن یہ لوگ ذمہ داری سے بچ گئے تھے۔ غزہ جلد ہی اس سے منہ موڑ لے گا۔

غزہ کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اور بڑی شدت اور تشدد کے ساتھ جاری ہے، جب کہ ہر روز لاتعداد بے گناہوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ وحشیانہ نتائج سے بےپروا جنگ، جو ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارے گی، نتن یاہو کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ٹھونک دے گی۔

(اس تحریر کے مصنف کویت کے سابق وزیر ثقافت و اطلاعات ہیں۔)

بشکریہ انڈپینڈنٹ عربی

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ